تحریر: مقبول خان
صنعتی فضلہ اور سیوریج کا پانی سمندر میں جارہا ہے، جس کی وجہ سے سمندر آلودہ ہورہا ہے۔ انتظامیہ کی غفلت سے سمندری حیات کو خطرناک حد تک نقصان پہنچ رہا ہے، کیونکہ گھریلو، تجارتی اور صنعتی اداروں کا سیوریج کا پانی، صنعتوں، پورٹ، مویشیوں اور مذبح خانوں کا فضلہ سمندر میں پھینکے جانے کے سبب سمندری ماحول تباہ کن مناظر پیش کر رہا ہے، جس سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
شہر میں کام کرنے والے اداروں اور مختلف محکموں کی ناک کے نیچے گندگی سمندر میں پھینکنے کا سلسلہ کافی عرصے جاری ہے۔ ابراہیم حیدری کے ایک مضافاتی گوٹھ سے گندے پانی کا ایک بڑا نالہ گذرتا ہے، اس کے گندے پانی کے سفید جھاگ کے نیچے چھپا ہوا سیاہ رنگ کا زہریلا پانی سمندر میں گرتا ہے۔
کورنگی کے صنتی علاقے میں ٹیکسائل اور چمڑا رنگنے، اور رنگ بنانے کی مختلف فیکٹریاں ہیں، یہ زہریلا پانی مذکورہ فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ کے ترجمان نے چند ماہ قبل سمندری ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ایک سیمینار میں بتایا تھا کہ سمندر میں مستقل بنیادوں پر زہریلا پانی اور صنعتی فضلہ بغیر کسی پروسیس کے پھینکے جانے کے باعث سمندر ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے، اور بندرگاہ 80 فیصد سے زائد آلودہ ہوچکی ہے، جس سے بحری جہازوں کو بچانے کےلئے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
گیم فش ایسو سی ایشن نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ کراچی کا ساحل دنیا کے آلودہ ترین ساحلوں میں شامل ہے، دوسری طرف کے پی ٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ سمندر کو آلودگی سے بچانے کےلئے دن رات عملی اقدامات کر رہی ہے۔ سیپا کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ صنعتوں سے خارج ہونے والا تقریباً 90 فیصد فضلہ صفائی کے طریقہ کار کے بغیر سمندر میں جارہا ہے۔ جہاں تک ٹریٹمنٹ پلانٹس کا تعلق ہے تو سندھ میں کوٹری کے صنعتی علاقے کے علاوہ کہیں بھی کمبائنڈ انفلوئینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ (سی ای ٹی پی) نہیں ہے اور مذکورہ پلانٹ بھی غیر فعال ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر 2018 میں کراچی کے لیے تشکیل دیے گئے عدالتی کمیشن نے 5 ٹریٹمنٹ پلانٹس بنانے کی تجویز دی تھی جو اب تک قائم نہیں ہوئے ہیں۔
ٹریٹمنٹ پلانٹس نہ ہونے کی وجہ سے ٹھوس صنعتی فضلہ اور زہریلا صنعتی پانی سمندر میں گرایا جارہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کراچی میں 500ملین گیلن یومیہ گندا پانی ہوتا ہے، جس میں سو ملین گیلن صنعتوں کا ہوتا ہے، جبکہ باقی گندا پانی گھریلو اور تجارتی ذرائع سے پیدا ہوتا ہے، جو برساتی نالوں کے ذریعہ صاف کئے بغیر سمندر میں گرتا ہے۔ سمندر اور کراچی کے ساحلی علاقوں کو آلودگی سے بچانے کےلئے سندھ انوائرمنٹل پرٹیکشن اتھارٹی نے اپنے طور پر بعض اقدامات کئے ہیں۔
کراچی کے صنعتی علاقوں میں کم و بیش ایک ہزار صنعتیں ایسی ہیں، جن کے پیداواری عمل کے دوران زہریلے صنعتی پانی کا اخراج ہوتا ہے، سیپا کے اقدامات کی وجہ سے 170 صنعتیں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا چکی ہیں جبکہ 87 ٹینریز نے کراچی کے کمبائنڈ ٹریٹمنٹ پلانٹ میں اپنا فضلہ ٹریٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ اب تک سیپا نے ماحولیاتی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی صنعتی اکائیوں کے خلاف 152 مقدمات ٹربیونل میں اور 384 جوڈیشل مجسٹریٹس کے سامنے دائر کیے ہیں، 149 خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا سنائی جاچکی ہے، جبکہ ایک کروڑ 95 لاکھ روپے کے جرمانے وصول کیے گئے ہیں۔ صنعتوں کے زہریلے پانی اور فضلے کے علاوہ سمندری آلودگی پھیلانے والے عوامل میں کراچی میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظامات کا نہ ہونا بھی ہے، اس شہر میں کچرا اکٹھا کرنے کی جگہیں متعین نہیں ہیں، جس کے باعث ٹھوس کچرا جس میں پلاسٹک اور پولی تھن کی تھیلیاں بھی ہوتی ہیں، انہیں برساتی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جو مون سون سیزن میں اربن سیلاب کی شکل میں سمندر برد ہو جاتا ہے۔
سمندری آلودگی پھیلانے میں لانڈھی سے آگے بھینس کالونی ہے، جہاں سیپا کے اعدادو شمار کے مطابق دس لاکھ سے زائد گائے اور بھینسیں ہیں، جن کا فضلہ بھی سمندر برد کیا جاتا ہے۔ سمندر ری آلودگی سیمیناروں، آگہی واک اور لیکچرز، محض قانون سازی سے ختم نہیں ہوگی، اس کے خاتمہ کےلئے مذکورہ بالا ان تمام عوامل کا سدباب کرنا ہوگا جو سمندری آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔نیز سمندری آلودگی پھیلانے والے تمام عوامل کے ذمہ داروں کے خلاف بھاری جرمانوں سمیت دیگر قانونی کارروائیاں کرنا ہونگی۔