کراچی: امریکہ میں نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری سے قبل تمام 50 ریاستوں میں ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران ممکنہ مسلح مظاہروں کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔
نیشنل گارڈ کے مزید فوجی دستوں کو فوراً واشنگٹن ڈی سی بھیجا گیا ہے اور انھیں چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ 6 جنوری جیسے خطرناک فسادات ہونے سے بچا جاسکے۔
امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے متنبہ کیا ہے کہ تمام ریاستوں میں صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے مسلح احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں۔
دریں اثنا جو بائیڈن کی ٹیم نے ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے جس میں ٹرمپ کی اہم پالیسیوں کو واپس بائیڈن صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پچھلی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو ختم کرنے کے لیے صدارتی حکم نامے جاری کریں گے۔ ایسا ایک پیغام میں دیکھا گیا ہے جو امریکی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہا ہے۔
ان میں مندرجہ ذیل فیصلے شامل ہوسکتے ہیں۔
وہ امریکہ کو دوبارہ پیرس معاہدے کا حصہ بنائیں گے۔ یہ عالمی سطح پر کاربن اخراج اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا منصوبہ ہے۔
وہ متعدد مسلم اکثریتی ممالک پر متنازع سفر پابندی کو ختم کریں گے۔
وہ وفاقی عمارتوں میں اور ایک ریاست سے دوسری ریاست میں سفر کے دوران چہرے پر ماسک پہننا لازم قرار دیں گے۔
صدر ٹرمپ کی طرح بائیڈن بھی صدارتی حکم ناموں کا استعمال کریں گے جس سے وہ کانگریس کو بائی پاس کریں گے۔ لیکن گذشتہ ہفتے انھوں نے لوگوں کی امداد کے لیے جو 1.9 ٹریلین ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اس پر قانون سازوں کی منظوری درکار ہوگی۔ امیگریشن (دوسرے ممالک سے لوگوں کی منتقلی) کے عمل میں اصلاحات کے بِل پر بھی قانون ساز بحث کر سکتے ہیں۔
بدھ کو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری سے قبل واشنگٹن ڈی سی کا اکثر حصہ لاک ڈاؤن میں ہوگا اور یہاں نیشنل گارڈ کے دستوں کی صورت میں ہزاروں جوان تعینات کیے جائیں گے۔
کیپیٹل ہِل سے کئی میل دور بھی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور وہاں کنکریٹ اور دھات کی رکاوٹیں نصب ہیں۔ کیپیٹل ہِل وہی جگہ ہے جہاں چھ جنوری کو فسادات ہوئے تھے۔
حلف برداری کی تقاریب کے دوران نیشنل مال، جہاں عام طور پر لوگوں کا رش ہوتا ہے، اسے بھی سیکرٹ سروس کی درخواست پر بند کر دیا گیا ہے۔ سیکرٹ سروس وہ ادارہ ہے جو امریکی صدور کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کرتا ہے، چاہے وہ بعد میں عہدے سے ہٹ چکے ہوں۔
بائیڈن کی ٹیم نے پہلے ہی کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے امریکیوں سے واشنگٹن ڈی سی سفر نہ کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔ مقامی حکام نے کہا ہے کہ لوگ یہ تقریب دور سے ہی دیکھیں. مزیدیہ کہ اتوار کو امریکہ میں مظاہرے ہوسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ٹرمپ کے حامیوں اور انتہائی دائیں بازوں کے گروہوں نے اس روز اپنی آن لائن کمیونٹی میں مسلح مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔
تاہم کچھ مسلح گروہوں نے اپنے حامیوں سے ان مظاہروں میں نہ جانے کا کہا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ پولیس نے یہ مظاہرے ایک منصوبے کے تحت رکھوائے ہیں تاکہ ان میں شمولیت کرنے والے لوگوں کو حراست میں لیا جاسکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان مسلح مظاہروں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ہوسکتے ہیں۔ کیپیٹل پولیس نے اتوار کو بتایا کہ ورجینیا سے تعلق رکھنے والا ایک مسلح شخص جمعے کو سکیورٹی چیک پوسٹ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کم از کم ایک بندوق تھی جس میں گولیوں کے 509 راؤنڈز تھے اور یہ حکومت کی جاری کردہ شناخت نہیں رکھتا تھا۔
ویزلی ایلن بیلر نامی اس شخص کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وہ ہتھیار لے کر واشنگٹن جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ وہاں ایک نجی سکیورٹی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ ’میں گاؤں میں رہنے والا شخص ہوں اس لیے میں ڈی سی کے راستے میں گم ہو گیا تھا۔ چیک پوائنٹ پر روکا گیا تو میں نے گاڑی روک لی۔ میں نے انھیں وہ ایناگریشن بیج دکھایا جو مجھے دیا گیا تھا۔‘
سخت سکیورٹی کے انتظامات اسیے وقت مںی کیے گئے ہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر بنے جن کے خلاف دو مرتبہ مواخذے کی کارروائی منظور ہوئی۔
ان پر ’تشدد پر اکسانے‘ کے الزام میں سینیٹ میں کیس چلایا جائے گا۔ یہ کیس ان کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہِل مظاہروں کے بعد سامنے آیا۔ ان حامیوں نے ایسا تب کیا جب کانگریس جو بائیڈن کی امریکی صدارتی انتخابات میں جیت کی منظوری دینے جا رہی تھی۔
اس واقعے کے نتیجے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بیکڈ الاسکا جن کا اصل نام انتھائم جوزیف ہے، ان اہم انتہائی دائیں بازوں کی شخصیات میں سے ہیں جنھیں حال ہی میں حراست میں لیا گیا ہے۔ انھیں جمعے کو ایک شکایت کے بعد ہیوسٹن ٹیکساس سے گرفتار کیا گیا اور ان پر ریاست کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیا گیا۔ ان میں کیپیٹل ہل میں پُرتشدد انداز میں داخل ہونے اور نظم و ضبط خراب کرنے کے الزامات شامل تھے۔
امریکہ بھر میں ریاستیں مسلح مظاہرے سے متعلق کسی واقعے کو ٹالنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ ان میں مظاہروں کی اجازت نہ دینے سے لے کر ریاستی عمارتوں میں سکیورٹی بڑھانے کے فیصلے شامل ہیں۔
میری لینڈ، نیو میکسیکو اور یوٹاہ کے گورنروں نے ممکنہ مظاہروں سے قبل ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
کیلیفورنیا، پینسلوینیا، مشیگن، ورجینیا، واشنگٹن اور وسکانسن میں نیشنل گارڈ کے فوجی دستے متحرک ہوچکے ہیں۔ ٹیکساس میں ریاستی عمارتوں کو ہفتے سے بدھ تک بند رکھا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جن ریاستوں میں صدارتی انتخابات کے دوران جو بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان کڑا مقابلہ دیکھا گیا تھا وہاں پُرتشدد واقعات ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ان ریاستوں میں سے ایک مشیگن ہے جہاں ریاستی عمارتوں کے گرد چھ فٹ کی دیوار بنائی گئی ہے۔
یہاں پولیس ڈائریکٹر جو گیسپر نے امید ظاہر کی ہے کہ لوگ پُرامن طریقے سے مظاہروں میں شرکت کریں گے۔ یہاں فروری کے وسط تک ان جگہوں پر پولیس کی نفری بڑھی رہے گی۔
اکتوبر میں مشگین کی ڈیموکریٹ گورنر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ایک مبینہ سازش کو ناکام بنایا گیا تھا۔
دوسری طرف فیس بک نے کہا ہے کہ وہ امریکہ میں ہتھیاروں سے متعلق چیزوں کے اشتہارات کو عارضی طور پر بند رکھیں گے۔ سوشل میڈیا کی اس ویب سائٹ پر پہلے ہی بندوق یا گولیاں بیچنے کے اشتہارات پر پابندی عائد ہے۔
یہ اقدام تب اٹھایا گیا جب تین سینیٹرز اور چار اٹارنی جنرلز نے فیس بک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنا منافع چھوڑ کر اب ملک کی جمہوریت کو ترجیح دیں۔