آبدوزہنگور۔پاک بحریہ کی جنگی تاریخ کا سنہری باب

0
196

تحریر: سید ایلیا حسن

صدیوں سے انسان کی کوشش رہی ہے کہ وہ جنگی ہتھیاروں میں انقلاب لے آئے اور اس روئے فانی کا ہر ملک دوسرے ملک سے جنگی ہتھیاروں میں سبقت لے جانے کے در پے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے روزانہ نت نئے تجربات کیے جاتے ہیں۔ان تجربات میں زیرِ آب قوت " آبدوز " کا تجربہ کافی حیران کن ثابت ہوا۔ پہلی جنگ ِعظیم میں جرمن بحری قوت میں شامل آبدوزوں نے دشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ جرمنی نے ان آبدوزوں کو U-Boatsکا نام دیا۔ جرمنی کے حریف ممالک کو اس ہتھیار کی وجہ سے بہت بڑے نقصان سے دو چار ہونا پڑا۔جرمنی کے کامیاب تجربے کے بعد ہر ملک نے اپنے طور پر اس ہتھیار کو بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔عالمی بحری افواج میں آبدوز کو ایک خاص مقام حاصل ہوا۔ اس ہتھیار کے حامل ممالک کوطاقتورترین ممالک کی فہرست میں گرداناجانے لگا۔ دوسری جنگِ عظیم میں بھی اس ہتھیار نے خوب تباہی مچائی۔
 آبدوز کو اس کی ساخت اور قابلیت کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے خاموشی سے نہ صرف دشمن پر نظر رکھی جا تی ہے بلکہ زمانہ جنگ میں اس کی تمام حربی چالوں کو پسپا کیا جاتا ہے۔ ان تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کے پیشِ نظر پاکستان نے 1964میںپہلی آبدوز اپنے بحری بیڑے میں شامل کی جس نے بعد ازاں 1965 کی جنگ میں دشمن کی بحری فوج پر ایسا خوف طاری کیا کہ وہ اپنی بندر گاہوں میں دُبک کر رہ گئی۔ اس خوفناک ہتھیار کو " غازی " کا نام دیا گیا جس نے اپنے نام کی پوری لاج رکھی اور دشمن کو ایک بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
    1965کی جنگ میں پاکستان نیوی آبدوز غازی کی مقبولیت کے بعد مزید آبدوزوں کی شمولیت کی کوششیں تیز کر دی گئیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت ہی قلیل عرصے میں مزید 3 آبدوزوں کو پاکستان کے بحری بیڑے میں شامل کیا گیا۔ ان کے نام شوشک، مانگرو اور ہنگور رکھے گئے۔
پاکستان کی جنگی تاریخ میں جہاں آبدوزغازی کے کارنامے سنہرے الفاظ سے رقم ہیں وہاںآبدوز ہنگورکے جنگی معرکے کا روشن باب بھی تاریخ کا حصہ ہے۔پاکستانی آبدوز ہنگور نے دشمن پر ایسی ضربِ کاری لگائی جس کا زخم کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ دسمبر کی سرد راتوں کے وہ تاریخی دن کبھی بھلائے نہیں جا سکتے جب پاکستانی آبدوز ہنگور دشمن کے پانیوں میں مصروفِ گشت تھی۔ آبدوز کی کمان کمانڈر احمد تسنیم کر رہے تھے جو بعد ازاں وائس ایڈمرل کے عہدے سے ریٹائر ڈہوئے۔ 9 دسمبر کے دن جب سہ پہر کا وقت بیت چکا تھاتب آبدوز کے سینسر ز پر نقل و حرکت کو نوٹ کیا گیا۔ اس بات پر کامل یقین کے لیے آبدوز کو پیری سکوپ کی گہرائی تک لا کر ریڈار کا جائزہ لیا گیا۔ اس جائزہ سے یہ بات سامنے آئی کہ دشمن کے دو آبدوز شکن بحری جہاز ناپاک سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ آبدوز شکن بحری جہاز آئی این ایس کُکری(Khukri) اور کِرپان(Kirpan) تھے۔ ان جہازوں کی خاصیت یہ تھی کہ کسی بھی آبدوز کو ڈھونڈ نکالنے اور تباہ کرنے کے تمام آلات سے لیس تھے۔ مگر جہاں حوصلے بلند ہوں اور اللہ کی مدد ساتھ ہو وہاں یہ باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں ۔
ان بحری بیڑوں کی موجودگی کا علم ہوتے ہی پاکستانی آبدوز ہنگور نے جلدہی ان کو غرق کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ۔ دشمن کو خبر بھی نہ تھی کہ ان کے نیچے ہی ان کی موت کا سامان تیار کیاجا رہا ہے۔ سب سے پہلے آئی این ایس کِرپان کو نشانے پر رکھ کر ایک تار پیڈو داغا گیا۔ ایک ہولناک آواز کے ساتھ سمندر کی خاموشی کو چیرتا ہوا یہ ہومنگ تار پیڈو دشمن کو غرق کرنے نکل پڑا ،مگر نشانہ چوک گیا۔ہدف کو نشانہ بنانے میں ناکامی کے بعد پاکستانی آبزادوں کے حوصلے پست نہ ہوئے بلکہ دوسرے تار پیڈو کو ہدف کی طرف داغا۔ اس بار ہدف کُکری کو بنایا گیا۔ تار پیڈو نے سمندر میں اُترتے ہی ہلچل مچا دی۔ برق رفتاری سے اپنے تمام مراحل عبور کرتے ہوئے آئی این ایس کُکری کی جانب بڑھنے لگا ۔ تار پیڈو نے کُکریکے عین نیچے پہنچ کر زور دار دھماکہ کیا۔ آئی این ایس کُکریکچھ ہی ساعتوں میں 18 آفیسرز اور 176 سیلرز کے ساتھ سمندربُرد ہو گیا۔ اپنی اس ناقابلِ فراموش کامیابی پر پاکستانی آبزادوں کے حوصلوں کو ایک نئی تقویت ملی اور ان کا اگلا ہدف کِرپان تھا۔ 

ٓ کُکری کی تباہی کا منظر ہر آنکھ نے دیکھا جو کِرپان پر موجود تھی۔ اب انہیں بھاگ نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا ۔ حملے کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے کر کمانڈر احمد تسنیم نے کِرپان پر حملے کا حکم دیا۔ تار پیڈو نے اس بار کِرپان کودبوچ لیا ۔ اور اس کے بیشتر حصے کو ناکارہ بنا کر واپس بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ آئی این ایس کِر پان دشمن کے لیے عبرت کا نشان بن کر واپس پہنچا ۔ پورے ملک میں ہنگور کے کارناموں کی صدائیں گونجنے لگیں اور دشمن کو ایک ہولناک شکست سے دو چار کرنے والی پاکستانی آبدوز کے چرچے ہونے لگے۔
دشمن کو ایک نا قابل فراموش شکست سے دو چار کرکے پاکستانی آبدوز ہنگور واپس اپنے پانیوں میں کامیابی سے پہنچ گئی۔ اس جانباز آبدوز نے پاکستان کی جنگی تاریخ میں ایک اور سنہرے باب کا اضافہ کیا جو کہ رہتی دنیا تک یاد رکھاجائے گا ۔ پاکستانی آبدوز کے اس معرکے کو پوری دنیا میں پذیر ائی ملی اوردشمن کو پیغام ملا کہ اگر کسی نے بھی پاک وطن پر بری نگاہ ڈالی تو اسے سوائے رسوائی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
پاکستان کا روایتی حریف آئے دن اپنی فوجی قوت کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے اس کی تمام تر کاوشیں بحر ہند میں اپنی دھاک بٹھانے پر مبذول نظر آتی ہیں ان تمام عزائم سے پاکستانی فوج بھی پوری طرح آگا ہ ہے ۔ اپنی بحری قوت کو تقویت دینے کے لیے پاکستان نے چین سے جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس آٹھ آبدوزوںکے حصول کامعاہدہ کیا۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس ان آبدوزوں سے ملک کی بحری سرحدوں کی حفاظت میں مزید مدد ملے گی۔ اللہ پاکستانی فوج بالخصوص پاک بحریہ کا حامی و ناصر ہو اور اسے ایسا مقام اور دبدبہ عطا فرمائے کہ دشمن اس کا نام سن کر لرزنے لگے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں