پاکستان اسٹیل مل کا عروج اور زوال

0
99

تحریر: محمد سلیم سالار جوکھیو

پاکستان اسٹیل مل جو کہ ملک کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ اس روسی ساختہ ادارے کی بنیاد ملک کے سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے سنہ 1974ع میں رکھی۔ یہ ایشیا کی دوسرے نمبر پر بڑی اسٹیل مل ہے۔ اس ادارے میں 22000 مزدور و افسران کام کرتے تھے۔ فوج کے اسلحہ ساز کمپنیوں اور ملک کے ہر عام و خاص تعمیرات میں لوہا استعمال ہوتا تھا۔ لوہے کے علاوہ 40 اور پروڈکٹس تیار کی جاتی تھی۔ یہ ادارہ ملک کی دیگر تمام صنعتوں سے تیز رفتار ترقی پر گامزن تھا۔ اس ادارے کے حوالے سے یہ کہاوت مشہور ہے کہ اسٹیل مل کے ملازمین کے بچوں کو لوگ رشتہ بغیر دیکھے دیتے تھے۔ اس ادارے میں مزدروں کی ٹریڈ یونین کی تعداد آدھا درجن کے قریب تھیں۔ سب سے زیادہ وقت رہنے والی مزدوروں کی ٹریڈ یونین پیپلز ورکرز ‘سی بی اے’ یونین رہی۔ جس کا تاحیات چیئرمین شمشاد قریشی پنجابی اسپیکنگ، صدر دھنی بخش سموں سندھی اسپیکنگ اور جنرل سیکریٹری سید حمید اللہ اردو بولتے تھے۔ ٹریڈ یونین ‘سی بی اے’ کے آڑ میں غالباً 4 سو من پسند لوگ نوکریاں نہیں کرتے تھے، بلکہ اوور ٹائم، ٹرانسپورٹ، میڈیکل، فیول، سیر و تفریح کے مزے مفت میں ادارے کے اخراجات استعمال کرتے تھے۔ جو کہ یونین کے نمائندے کہلاتے تھے۔ برے کاموں کے ساتھ ساتھ پیپلز ورکرز یونین نے مزدروں کو کچھ اچھے ڈیمانڈ بھی دلوائے۔

پاکستان اسٹیل ٹائون شپ جو کہ پاکستان اسٹیل مل کی پراپرٹی ہے۔ اسے دوسری ڈفینس ہائوسنگ سوسائٹی کہا جاتا تھا۔ گلشن حدید جو کہ پاکستان اسٹیل مل کی طرف سے بنائی گئی ملازمین کے لئے کالونی ہے، جس کی الاٹمنٹ ادارے نے قسطوں پر مزدوروں کو دی۔ جو کہ کراچی میں مڈل کلاس لوگوں کے لئے سب سے اچھی رہائشی کالونی کہلاتی تھی۔ کینجھر جھیل اور ھالیجی جھیل سے گیارہ کلومیٹر لمبا اوپن کینال اور پھر گھارو پمپنگ ہاؤس سے گلشن حدید پپری تک 31 کلومیٹر لمبائی ساٹھ انچ کی لوہی کی پائپ لائن کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا تھا۔ پورٹ قاسم اتھارٹی سے پاکستان اسٹیل مل کے مین پلانٹ تک ساڑھے چار کلو میٹر لمبی کنوینئر کے ذریعے بیرون ممالک سے ادارے کے لئے خام مال کول اور کوک مہیا کیا جاتا تھا۔

پاکستان اسٹیل مل کی ساڑھے 4 کلو میٹر لمبی کنوینئر جو کہ ایشیا کی سب سے بڑی کنوینئر مانی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ایکڑ اراضی پر مکلی اسٹون کریشر، جھمپیر اسٹون کریشر تھے۔ جہاں سے ادارے کو روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ٹرکیں اور ریلوے لائن کے ذریعے پتھر خام مال کی صورت میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اسٹیل ٹاؤن کے اندر کیڈٹ کالج، بیکن ہاؤس اسکول، سٹی کلف اسکول، مادر ملت اسکول و کالج، شاہ لطیف اسکول، سر سید اسکول، رعنا لیاقت اسکول، خوشحال خان خٹک اسکول، علامہ اقبال اسکول و کالج اور اس کے علاوہ درجنوں تعلیمی ادارے تھے، یہ کہاوت مشہور ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے گلشن حدید میں ہیں۔ لوگ ملک کے دیگر حصوں سے یہاں صرف تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز کو عروج کے بعد زوال بھی ہے۔ یہ ادارہ کرپشن کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ملک
کی وزیر اعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس ملک اور ادارے کا کنٹرول موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ہاتھوں چڑھ گیا۔ اس نے اپنے سسر، ایشیا کے سب سے بڑے عوامی جمہوریہ لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نشانی کو بچانے کے بجائے لوٹ کھسوٹ کا بازار شروع کردیا۔ جس میں سویلینز کے ساتھ ملک کے طاقتور ادارے کے لوگوں کو کرپشن کی بہتی ہوئی گنگا میں شامل کردیا۔ بعد میں اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کے موجودہ وزیراعظم کے بھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ وقت رہنے والے حکمران میاں محمد نواز شریف نے بھی یہی لوٹنے کی روایت برقرار رکھی۔ میاں محمد نواز شریف جسے عام طور پر کباڑیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ادارے کے سونے جیسے لوہے کو کباڑ میں شامل کرکے اپنی ذاتی فیکٹریوں میں استعمال کیلئے روزانہ ہزاروں ٹن لاھور بھجواتا رہا۔ کرپشن کی بہتی ہوئی گنگا میں ملک کے دیگر بھی کئی وزراء اور بیوروکریسی کے لوگ ملوث تھے۔ جن کی اپنی نجی لوہا ساز کمپنیاں ہیں۔ ان سب نے ادارے کو اس لئے تباہ کیا کہ جب یہ ایک عالیشان مل بیٹھ جائے گی، تو ان کی اپنی نجی کمپنیاں عروج پائیں گی، لاکھوں ٹن سونے جیسا لوہا، تانبا و دیگر سامان کباڑ میں شامل کیا گیا۔ لاکھوں ٹن سونے جیسا لوہا اور تانبا چوری کیا گیا۔ خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ ملک کے موجودہ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی نظریں پاکستان اسٹیل مل کی ہزاروں ایکڑ زمین پر ہیں۔

سنہ 2015ع کے بعد کچھ عرصہ کیلئے ملک کا اقتدار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نیازی کے حوالے کیا گیا۔ وہ بھی اس مردہ حالت ادارے کو زندہ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوا اور ‘آئی ایم ایف’ کے پریشر میں آکر پہلی بار مزدروں کی چھانٹی کرنے کا آغاز ہوا۔ اس ریت کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کے کرپشن کے کنگز، کرپشن کے ماسٹر مائنڈ اور کرپشن کے خالق و مالک ملک کے موجودہ صدر آصف علی زرداری اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف/ نواز شریف نے مزدروں کی بحالی کے بجائے چھانٹی کا عمل تیزی سے شروع کردیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈران چار سال تک عوام کو، مزدروں کو لولی پاپ دیتے رہے، بلاول بھٹو زرداری سے اعلانات کرواتے رہے، مزدوروں کو بندر کی طرح نچاتے رہے، اسی دھوکہ میں عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہے اور کامیاب رہے، جو ٹارگٹ حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ حاصل کرلیا۔ ادارے کو مکمل طور پر بند کردیا، ادارے میں موجود لاکھوں ٹن سونے جیسا لوہا اور تانبا چوری کرلیا۔ ادارے کی طرف سے کمائی گئی کھربوں روپے ہڑپ کر لیے، ادارے کی ہزاروں ایکڑ زمین اونے پونے داموں بلڈرز مافیا کے حوالے کردی اور سینکڑوں ایکڑ اراضی جعلی ڈاکیومنٹس بناکر لینڈ مافیا کے حوالے کردی۔ جن مزدروں کو چھانٹی کیا گیا، اپنے واجبات کی وصولی کے لئے مارے مارے عدالتوں میں دھکے کھارہے ہیں۔ ادارے کی تباہی کے غم میں، بیروزگاری کی وجہ سے درجنوں مزدروں نے خودکشیاں کرلیں، ہزاروں مزدور بیروزگار ہوگئے، لاکھوں معصوم بچوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا گیا۔ سینکڑوں مزدور بھوک اور صدمے سے موت کا شکار ہوگئے۔

جو ادارہ جنت نظیر کہلاتا تھا، وہ ادارہ دوزخ بن کر رہ گیا۔ ہر جگ سناٹا چھا گیا ہے، ادارے اور اسٹیل ٹاؤن شپ میں انسانوں کے بجائے راتوں میں سوّر گھوم رہے ہیں۔ دن ہو یا رات ہر وقت چوروں ڈکیتوں کے ڈیرے جمے ہوئے ہیں۔ جن مزدوروں نے اپنے معصوم بچوں کے مستقبل کے سوہانے خواب دیکھے، وہ بھیک مانگ رہے ہیں۔

دختر ایشیا، اسلامی ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے بعد یہ ادارہ بھی مزدوروں سمیت ‘انا للّٰہ وانا الیہ راجعون’ ہوگیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے وارث غریب ملازمین، عوام کا دیوالیہ کردیا گیا۔ اسی طرح سے اس ملک کے عظیم الشان ادارے کا سنگ بنیاد ایشیا کے سب سے بڑے عوامی جمہوریہ لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور اس ادارے کا زوال آصف علی زرداری، نواز شریف اور عمران خان کی کاوشوں سے ہوا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں