تحریر: رضوان عامر
بڑے ہی عجیب لوگ ہیں یہ فلسطینی۔ بہت ہی عجیب۔ اپنے مشن اور کاز کے ساتھ ایسے مخلص کہ ہر دنیوی آسائش اور بڑے سے بڑے مفاد کو بھی جوتے کی نوک پہ رکھنے والے۔ اب تک یہ کہا جاتا رہا کہ فلسطینیوں کی میزائل اور راکٹ ٹیکنالوجی کو ایران نے ڈیولپ کیا۔ مگر حقیقت حال اب سامنے آئی ہے۔
فلسطینی اس وقت تک مزاحمتی قوت کے اصل دماغوں کو پردہ اخفا میں رکھتے ہیں، جب تک وہ مرتبہ شہادت پر فائز نہیں ہو جاتے۔ یہ ہیں ڈاکٹر جمال الزبدہ، جنہوں نے امریکی شہریت، ناسا جیسے ادارے کی ملازمت اور آسائش بھری زندگی کو فلسطینی کاز کیلئے قربان کیا۔ مختلف امریکی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے یہ عظیم سائنسدان جامعہ غزہ میں استاذ تھے۔ 64 سالہ ڈاکٹر جمال ناسا سے بھی وابستہ رہے اور امریکی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے اور ان کے تحقیقی مضامین (ہوائی جہاز کے انجن کی ڈیولپمنٹ سے متعلق) مختلف عالمی جرائد کی زینت بنتے رہے۔ لیکن دست قدرت نے ان سے کچھ اور کام لینا تھا، اس لئے وہ 1994ء میں وطن لوٹ آئے۔ 2006ء میں یعنی غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہونے کے ایک سال بعد ہی میزائل سازی کا کام شروع کیا۔ عجیب ترین بات یہ ہے کہ ڈاکٹر جمال نے یہ سب کچھ خفیہ رکھا، حتیٰ کہ ان کے قریبی رشتہ داروں کو بھی اس کا علم نہ ہو سکا۔ البتہ ان کی اہلیہ امّ اُسامہ ان کی راز داں تھی۔
عظیم خاتون کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ خطرناک راستہ اختیار کرنے سے قبل مجھ سے مشورہ لیا تھا، میں نے بلاتردد انہیں راہ عزیمت پر چلنے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر جمال نے اپنے کئی شاگرد تیار کئے اور اب ان کے تیار کردہ میزائل ڈھائی سو کلومیٹر تک ہدف کو ہٹ کر سکتے ہیں، بلکہ کرکے دکھایا۔ صاروخ عیاش نامی ان میزائلوں کو حالیہ جنگ میں پہلی بار استعمال کیا گیا۔ اسرائیل کافی عرصے سے ان کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ 2012ء میں بھی انہیں ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس بار وہ کمانڈر عیسیٰ کے ساتھ بمباری کا نشانہ بن گئے۔ جس میں ان کا بیٹا اُسامہ بھی شہید ہوگیا۔ یہ بہت بڑا نقصان ضرور ہے، لیکن ڈاکٹر جمال اپنے حصے کا مکمل کرکے اپنا فن شاگردوں کو سکھا چکے ہیں۔
دائرة التصنیع العسکری (ایم آئی سی) اب کافی ترقی کر چکا ہے۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ مجھ سے تعزیت مت کرو، مجھے مبارک باد دو کہ خدا نے میرے سرتاج اور لخت جگر کو خلعت شہادت پہنانے کیلئے چنا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اس خوشی پر پھولے نہیں سما رہی اور مجھے بہت زیادہ فخر ہے کہ اسرائیل پر برسنے والے میزائلوں کا موجد میرا شوہر تھا۔
الجزیرہ کی ٹیم جب ان کے گھر پہنچی تو شہید کی عظیم اہلیہ اور دوسرے شہید کی ماں نے بڑی خوشی سے اس کا استقبال کیا۔ ان کے گھر پر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ جنہیں امّ اسامہ نے معزین (تعزیت کرنے والے) کے بجائے مہنئین یعنی مبارکباد دینے والے قرار دیا۔ یاد رہے فلسطینی ڈرون طیاروں کے موجد تونسی سائنسدان ہیں۔ ان پر عنقریب روشنی ڈالیں گے۔
پروفیسر جمال اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کے نہ ختم ہونے والے ہیروز میں سے ایک ہیں۔ وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں انجینئرنگ سائنسز اور میکینکس کے پروفیسر تھے اور پی ایچ ڈی کے ساتھ گریجویشن کیا تھا۔ ورجینیا انسٹی ٹیوٹ برائے تنقیدی ٹیکنالوجی اور اپلائیڈ سائنس سے تقریباً 35 سال پہلے ڈگری حاصل کی تھی۔
الجزیرہ کے مطابق، پروفیسر جمال نے سول ایوی ایشن میں بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور ایف 16 لڑاکا طیارے کے انجن کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ اور ان کے اہل خانہ امریکی شہریت کے حامل تھے۔ انہیں آسائش اور سکون کی زندگی گزارنے کا موقع حاصل تھا۔ تاہم انہوں نے امریکہ چھوڑ دیا اور غزہ کا ایک لمبا سفر شروع کیا، جو ان کی شہادت پر اختتام پزیر ہوا۔
پروفیسر جمال نے اپنی فوجی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے قسام بریگیڈ کے کمانڈر اعلیٰ محمد ضیف کی سرپرستی میں خفیہ کام کیا۔ انہوں نے اسلامی یونیورسٹی کے انجینئروں کی ایک بڑی نسل کو فارغ التحصیل کیا اور خفیہ طور پر اپنے فوجی آلات تیار کرنے اور مزاحمت کے پروگرام میں کام کرنے کیلئے سیکڑوں افراد کو بھرتی کیا۔
پروفیسر جمال الزبدہ 2012ء سے روپوش تھے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے 2014ء کی جنگ میں ان کے اپارٹمنٹ پر بمباری کرکے انہیں شہید کرنے کی کوشش کی تھی۔ پروفیسر جمال کی اہلیہ نے کہا کہ ان کی اولاد اپنے عظیم والد کا مشن جاری رکھے گی۔ شہید اسامہ کی اہلیہ کے بھی یہی جذبات ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر جمال کے بارے میں یہ ساری باتیں ان کی شہادت کے بعد گزشتہ روز سامنے آئیں اور پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ حماس کی میزائل ٹیکنالوجی کا موجد ایک گمنام سائنسدان تھا۔
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن،
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را