پاکستان اسٹیل ملز میں ناجائز تقرریوں کا اسکینڈل، نیب اور ایف آئی اے تفتیش کے بجائے خاموش تماشائی بن گئے

0
414

کراچی (مدثر غفور) پاکستان اسٹیل ملز میں اشتہارات اور مسابقتی عمل کے بغیر اقربا پروری، آفیسرز سروس رولز اور ضوابط کی خلاف ورزی پر حالیہ ناجائز تقرریوں کے اسکینڈل کو نیب اور ایف آئی اے کے زریعے فوری نوٹس لیتے ہوئے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز میں جہاں قابل اور تجربہ کار پیشہ ور افراد انجینئرز اور دیگر افسران / ملازمین کو موجودہ انتظامیہ اخراجات کو کم کرنے کے دعوے کے ساتھ جبری برطرف کر رہی ہے، اسی دوران کچھ اعلی انتظامی افسران کے دوست اور ان کے ساتھیوں کو بغیر کسی اشتہار کے اور مسابقتی عمل منافع بخش تنخواہ پیکجز اور مراعات پر بھرتی کیا جارہا ہے۔ ان افسران کی بھرتی کے لئے پاکستان اسٹیل مل آفیسرز سروس رولز و ضوابط اور وفاقی حکومت کی ملازمت پر رکھنے کی پالیسیوں کی واضح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق اس سے ہر ماہ قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ان خلاف ضابطہ تقرریوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث افراد پی ای او اے اینڈ پی لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان اور اے ڈی جی ایم انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی کو چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان اسٹیل ملز بریگیڈئیر ریٹائرڈ شجاح حسن کی ناجائز حمایت حاصل ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز آفیسرز سروس رولز اور ضوابط کے مطابق ہر خالی افسر کے عہدے کو یا تو آرگنائزیشن کے اندر سے مناسب افسر کے ساتھ پُر کیا جانا چاہئے یا اہلیت، عمر اور تجربے وغیرہ کے معیار کے مطابق باہر سے اشتہار کے ذریعے پُر کیا جائے (اگر آرگنائزیشن کے اندر کوئی مناسب افسر دستیاب نہیں ہے)۔ جیسا کہ ان اصولوں میں ذکر کیا گیا ہے جو پاکستان اسٹیل ملز بورڈ آف ڈائریکٹرز سے مستند طور پر منظور شدہ ہیں۔ لیکن متعدد رپورٹس ملی ہیں جس میں اس معیار کی خلاف ورزی، اقربا پروری اور فیورٹزم پر ناجائز تقرریاں کی گئیں ہیں۔ جن میں فورسز کے متعدد ریٹائرڈ رینکرز اور افسران جو پی ای او اے اینڈ پی لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان اور جنرل منیجر سیکیورٹی کیپٹن ریٹائرڈ بابر برنارڈ میسی کے دوست اور ساتھی تھے۔ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ میں بطور منیجر اعلی تنخواہ، پیکیج، گاڑیاں، پیٹرول اور دیگر سہولیات فراہم کرتے ہوئے بھرتی کیے گئے ہیں۔ جبکہ انہیں 2 لاکھ روپے سے ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ تنخواہیں مل رہی ہے جبکہ اسٹیل ملز سے قیمتی سازو سامان اور اسکریپ چوری کے واقعات عروج پر ہیں۔ یہاں تک کہ اے اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ اور فنائنس ڈیپارٹمنٹ میں متعدد افسران بغیر کسی قابل ذکر سرکاری کام کے معاہدے اور ڈیلی ویجز کی نوکریوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور ان کی ملازمتوں کو پی ای او اینڈ پی اور اے سی ایف او عارف شیخ ٹاپ مینجمنٹ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو گمراہ کرکے محفوظ رکھتے ہیں۔

انہیں میں سے ایک مثال ارتضی علی کی ہے جو منیجر ہیومن ریسورس کی حیثیت سے اے اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا ہے۔ ارتضی علی کو ڈیلی ویجز پر منیجر (پاکستان اسٹیل ملز پی ایس ای-4 گریڈ آفیسر کے برابر) کے عہدے پر جون 2020 سے 89 دن کے لئے بھرتی کیا گیا تھا۔ وہ اس غیر قانونی تقرری کے ذریعے روزانہ 5 ہزار پانچ سو روپے یعنی کہ 1 لاکھ 65 ہزار روپے ماہانہ کسی ہفتہ وار چھٹیوں کی کٹوتی کے) حاصل کر رہا ہے اور رہائش، ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسی دیگر مراعات اور فوائد سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ارتضی علی کے انگیجمنٹ پیریڈ کی ابتدائی مدت 89 دن کی تھی اور 89 دن کی معیاد ختم ہونے کے بعد گزشتہ ایک سال سے اے اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ بار بار احکامات کے زریعے اس کا دوبارہ کانٹریکٹ بڑھا دیتا ہے جس سے وہ اس عہدے پر تاحال قابض ہے۔

جب تحقیق کے زریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ہر مرتبہ یہی افسر کیوں مقرر ہوتا ہے اور اس عہدے پر اشتہار اور مقابلے کے زریعے کسی اور کا تقرر کیوں نہیں کیا گیا تو اے اینڈ پی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ چونکہ ارتضی علی کی تقرری پی ای او اے اینڈ پی لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان نے کی ہے اور چیف ایگزیکٹو آفیسر عام اجلاسوں میں یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ارتضیٰ علی ہمارا خاص آدمی ( جو کہ ایک فوجی افسر کا بیٹا) ہے۔ جب ارتضی علی کی پچھلی سروس پروفائل پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ارتضی علی نے فروری 2019 سے جون 2020 تک مارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں کام کیا ہے، جہاں جنرل منیجر سیکیورٹی بابر برنارڈ میسی نے بھی کام کیا تھا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ دونوں پچھلی سروس کے دوست ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ ارتضی علی کو کسی بھی بڑے صنعتی ادارے میں ہیومن ریسورس کی سطح پر کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ چناچہ پاکستان اسٹیل ملز اے اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ، انتظامیہ کے اعلی افسران بشمول چیف ایگزیکٹو آفیسر، پی ای او اے اینڈ پی، جنرل منیجر سیکیورٹی کے دوستوں، ساتھیوں کے لئے بغیر کسی اشتہار، میرٹ اور مسابقتی غور و فکر کے ایک بھرتی کا مرکز بن گیا ہے۔ جبکہ ان کی اپنی اور چیف فنانشل آفیسر کی غیرقانونی تقرریوں کو پیپلز ورکرز یونین نے آئینی پٹیشن نمبر 4699/2020 کے زریعے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔

جب یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان اسٹیل ملز اے اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران قواعد و ضوابط پر عمل کیوں نہیں کررہے تو زرائع نے بتایا کہ جب سے ریاض حسین منگی کو انچارج اے اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے تعینات کیا گیا ہے تب سے ایسی بے ضابطگیاں عروج پر ہیں کیونکہ ریاض حسین منگی اپنی نااہلی کے باوجود ناجائز فوائد و سہولیات حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ سے پی ای او اے اینڈ پی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کی کسی بھی غیر قانونی ہدایات کے تابع رہتا ہے۔ جب انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی کی تعلیمی اور سروس پروفائل کی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ صرف کامرس گریجویٹ (بی کام) ہے جس کے پاس ہیومن ریسورسز کی کوئی تعلیم / قابلیت نہیں ہے۔ ریاض منگی نے گریجویشن کے بعد سندھ یونیورسٹی سے چند ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس کیا ہے، جس کو وہ دھوکہ دہی کے ساتھ وزارت صنعت و پیداوار اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی ڈگری ظاہر کرتا ہے۔

 ماضی میں نیب اور ایف آئی اے نے پاکستان اسٹیل ملز بدعنوانی کے متعدد معاملات میں بھی ریاض منگی سے پوچھ گچھ کی تھی اور فرانزک اکاؤنٹنسی رپورٹ-2011 میں بدعنوانی اور بدانتظامی کے ذریعے پاکستان اسٹیل ملز کو نقصان پہنچانے پر ان کا نام دیگر افسران کے ساتھ بھی شامل رکھا گیا تھا۔ جسے میسرز اویس حیدر لیاقت نعمان اینڈ کمپنی، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کے احکامات کے تناظر میں تیار کیا اور اسٹیل ملز انتظامیہ کو جمع کروایا تھا تاہم ایک بااثر شخص ہونے کی وجہ سے اور بدعنوان انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے وہ ہمیشہ اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب رہا۔ حیران کُن طور پر اب بھی ریاض حسین منگی کو پاکستان اسٹیل مل اینٹی کرپشن اینڈ احتساباتی سیل (اے سی اینڈ اے سی) کا چارج سونپا گیا ہے تاکہ پاکستان اسٹیل ملز سے کسی بھی طرح کے بدعنوانی کے واقعات اینٹی گرافٹ باڈیز (انسداد بد عنوانی محکمے) کو صحیح طور پر رپورٹ نہ کئے جاسکیں۔
 
مذکورہ بالا افسران کی یہ ناجائز تقرریاں جنوری 2020 کے بعد سے موجودہ مینجمنٹ کے دور میں پاکستان اسٹیل مل آفیسرز سروس رولز اور ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اشتہار اور مسابقتی عمل کے آفیسر گریڈ / عہدہ میں کی جارہی ہیں اور ان سے ہر ماہ قومی خزانے اور پاکستان اسٹیل ملز کو لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کو پاکستان اسٹیل ملز بورڈ آف ڈائریکٹرز اور احتساب کے قومی اداروں کو چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان اسٹیل ملز، پی ای او اے اینڈ پی، جنرل منیجر سیکیورٹی، اے سی ایف او اور اے ڈی جی ایم انچارج اے اینڈ پی کی جانب سے کی جانے والی ان غیر قانونی تقرریوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان کا احتساب کرنا چاہئے۔ مذید برآں ان ناجائز تقرریوں کو فوری طور پر ختم کیا جانا چاہئے اور قومی خزانے کو مزید نقصانات سے بچانے کے لئے ادا کی جانے والی رقوم کی واپسی کی یقینی بنانا چاہئے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں