اردو فطری یا ساختہ زبان؟ سوشل میڈیا ادبی سروے میں عبدالواحد عباسی، اعجاز احمد نواب، ناہید عزمی، ملکہ افروز، نگہت سلیم، ناصر ملک، نواب قریشی، بابا کلیم فریدی کا اظہار خیال

0
18

کراچی (ادبی سروے رپورٹ: مقبول خان) گذشتہ دنوں اردو فطری نہیں ساختہ زبان ہے، کے موضوع پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بُک پر دوستوں نے اپنے اپنے خیالا ت کا اظہار کیا تھا۔ جسے ہم نے ادبی سروے کے روپ میں ڈھال کر اپنے دوستوں اور قارئین کی خدمت میں پیش کر نے کوشش کی ہے۔ لیکن اس سے قبل ہم اردو زبان کے حوالے سے چند نکات پیش کرتے ہیں۔

اردو بلا شبہ لشکری لیکن فطری زبان ہے۔ ابتداء میں یہ صرف بر صغیر میں بولی اور سمجھی جاتی تھی، لیکن اب یہ ایک عالمگیر زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ مشرق، ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب دنیا کے ہر خطے میں اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والے مل جائیں گے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں بھی اردو زبان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو کو نہ صرف قومی زبان کا درجہ ملا ہے، بلکہ یہ ایک رابطہ کی زبان بھی بن چکی ہے۔ اردو کا دامن کافی وسیع ہے۔ اس زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس میں دنیا کی چار بڑی زبانوں انگلش، عربی، فارسی اور سنسکرت کے الفاظ کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے الفاظ اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔

اردو فطری نہیں ساختہ زبان ہے کے موضوع پر جن دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، انہیں یہاں کسی تبصرے یا ترمیم و اضافے کے بغیر پیش کیا جارہا ہے۔

عبدا لواحد عباسی کی رائے ہے کہ مقبول بھائی بھائی اردو کہا ں ہے یہ تو ہندی ہے آپ کوئی بھی ہندی فلم یا نیوز دیکھیں لگ پتا چل جائے گا۔ صرف ہم نے اس کو الفا بیٹ فارسی کا دیا ہے وہ ہم انگلش بھی دے سکتے تھے۔ اعجاز احمد نواب کا موقف ہے کہ صرف اردو ہی فطری ہے جس نے مغلیہ افواج کے لشکروں میں ضرورت کے تحت خود بخود جنم لیا ہے۔ باقی ساری زبانیں منصوبہ بندی سے بنائی گئیں۔ نگہت سلیم کا کہنا ہے کہ اعجاز احمد عمدہ نکتہ لائے ہیں۔ ملک ناصر کہتے ہیں کہ یہ غیر فطری تے گھس بیٹھی زبان اے۔ مگر غیر فطری طور پرباردو زبان کو مفاد پرستوں نے ہم پر مسلط کر دیا ہے، اور اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ معروف شاعرہ ناہید عزمی نے اردو کو فطری زبان قرار دیا۔ اور ناصر ملک کے ریمارکس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جواب دیا کہ پھر اردو مت بولا کریں، اس میں شاعری مت کریں۔ اس گھس بیٹھی زبان کو اپنی صفوں سے نکال دیں۔ ناہید عزمی مزید کہتی ہیں کہ جو زبان شہرت کا ذریعہ ہو اس سے مفاد حاصل کرتے رہیں۔ اور اس سے بغض بھی نکالتے رہیں۔ ملکہ افروز نے بھی ناصر ملک کے موقف پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس زبان نے قیام پاکستان کا راستہ ہموار کیا، جس کی بدولت ہم اس ملک کے شہری کہلائے، اور مفادات سمیٹ رہے ہیں۔ اسے گھس بیٹھی زبان کہہ رہے ہیں۔ ملکہ افروز مزید کہتی ہیں کہ ہم کسی علاقائی زبان یا بولی کے خلاف نہیں ہیں۔ اردو اگرچہ ہماری مادری زبان ہے، لیکن ہمیں اردو پر قومی زبان ہونے کے ناطے فخر ہے، اردو پورے ملک میں رابطے کی زبان ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، نگہت سلیم نے ملکہ افروز کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ کم ظرفوں نے اردو سے زیادہ سے زیادہ دام اور نام سمیٹے ہیں، اردو کی اہمیت سمجھنے کے لئے کشادہ دلی کی ضرورت ہے۔اعجاز احمد نواب نے بھی ناصر ملک کو بھر پور جواب دیتے ہوئے کہا کہ ناصر ملک کی بات سے سخت مایوسی اور دکھ ہوا ہے۔ مادری بولی ہم سب کو عزیز ہوتی ہے، لیکن اردو ہمیں سب سے عزیز ہے۔

سینئر صحافی نواب قر یشی کہتے ہیں کہ اردو بے ساختہ زبان ہے۔ مرزا بیگ کہتے ہیں کہ اردو لشکری زبان ہے۔ ہر زبان نے ہماری زبان اردو میں حصہ ڈالا ہے۔ بابا کلیم فریدی کا کہنا ہے کہ تو مان یا نہ مان۔۔۔فاختہ امن کا نشان۔۔ اردو ہے قومی زبان۔۔۔قومی زبان پاکستان کی شان ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں