میڈیا کا زوال اور معاشرہ

0
56

تحریر: پیرزادہ سلمان

آج میں نے این ای ڈی یونیورسٹی کے فیسٹیول میں میڈیا پر ایک اجلاس میں شرکت کی۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مجھے اس بارے میں بات کرنے کے لیے بلایا گیا کیوں کہ میں کلچر اور آرٹ پر لکھتا ہوں جسے شاید ہمارے ہاں سنجیدہ صحافت نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تحریر میں اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کیوں کہ میں نے ابھی اپنے دوست کاشف رضا کی ایک فیس پوسٹ پڑھی ہے جو اسی ذیل میں ہے۔ میں نے اجلاس میں بات کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس کو سمجھانے کے لیے کہا کہ
‘صحافی کا بنیادی کام لوگوں کو با خبر رکھنا ہے۔  خبر کا تعلق کسی بھی موضوع سے ہو سکتا ہے (سیاست، کھیل، معیشت، شوبز وغیرہ)۔ جب رپورٹر کوئی خبر فائل کرتا ہے تو وہ پہلے ڈیسک پر جاتی ہے جسے ایک سب ایڈیٹر گرامر اور اخبار کی پالیسی کے حساب سے دیکھتا اور جہاں درست اور بہتر کرنے کی گنجائش ہوتی ہے کر دیتا ہے۔ وہ رپورٹر سے خبر کے چیک اور ڈبل چیک ہونے کے بارے میں بھی پوچھتا ہے۔ پھر وہ خبر سٹی ایڈیٹر یا ایڈیٹر کے پاس جاتی ہے جو اس فائنل ٹچز دے کے چھپنے کے لیے بھیجتا ہے۔ یہاں خبر کے موضوع کے ساتھ گرامر یعنی زبان کی صحت کی بات بھی ہو رہی ہے کیوں کہ جب کوئی چیز عوام کے ہاتھ میں جائے گی تو اس سے عوام کی تعلیم پر فرق نہ آئے۔

مگر جب سے ٹی وی چینلز سامنے آئے ہیں تب سے دو سطح پر نقصان ہوا ہے۔ پہلی تو یہ کہ صرف سیاست پر فوکس اور دوسرے موضوعات کو سرسری اہمیت دینے سے سنسنی خیزی پھیلی ہے جس سے لوگ ظلم اور جبر سے ڈی سینسٹائیزڈ  (de-sensitized) ہوگئے ہیں۔ دوسری یہ کہ ایڈیٹوریل چیک (اور لسانی خواندگی) نہ ہونے کی وجہ سے زبان کے لا ابالی استعمال سے ایک ڈی انٹیلکچولایزیشن (de-intellecutalizaion) کا عمل دیکھنے میں آیا ہے جس کا تمام معاشرہ شکار ہے۔ سننسی خیزی کی وجہ سے زبان کا بھدا استعمال کرنے والے بھی سیلبرٹی (celebrity) ہو گئے ہیں اور چونکہ ایسا ہو چکا ہے اس لیے انہیں اپنے سیلبرٹی اسٹییٹس کو قائم رکھنے کے لیے صرف منفی بات کرنی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں بی بی سی یا سی این این کے رپورٹر شوبز سیلبرٹی کے درجے پر نہیں رکھے جاتے، لیکن ہمارے ہاں اب ایسا ہو چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب ٹی وی کا آدمی ‘انہیں اتنے ووٹ ملے’ یا ‘انہوں نے اتنے ووٹ حاصل کیے’ کی بجاے ‘ووٹ پڑے’ کہتا ہے لوگ بھی آپس میں بات کرتے ہوئے ‘اسے اتنے ووٹ پڑے’ ہی کہتے ہیں۔

ہمارے اسی ملک میں ایک ایسی عورت بھی ہے جس نے دو آسکر ایوارٖ جیت رکھے ہیں، ایک ایسی عورت بھی ہے جس نے تین گریمی جیت رکھے ہیں، ایسے لکھاری بھی ہیں جو مغرب میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں، دیہات میں ایسے لوگ بھی ہیں جو لوک فن میں کمال دکھا رہے ہیں۔۔ ۔ اور ایسی بہت سے اچھی باتیں ہیں، مگر آپ ہمارے ٹی وی یا سوشل میڈیا پر ان کا ذکر نہیں سنیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں