رپورٹ: مدثرغفور
کراچی: نیو یارک میں واقع پی آئی اے کی ملکیت روزویلٹ ہوٹل کی نج کاری کابینہ کی نجکاری کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ پی آئی اے کی ملکیت پاکستان کا نیو یارک میں قابل فخر اثاثہ روزویلٹ ہوٹل بھی بیچنے کی تیاریاں مکمل، سوال یہ ہے کہ خریدار کون ہے؟۔
پی آئی اے کے چیئرمین ائیر مارشل ارشد ملک کے مطابق پی آئی اے کا 2018 میں ماہانہ خسارہ 3 ارب تھا، 2019 میں ماہانہ خسارہ 4.7 ارب اور حالیہ مالی سال ماہانہ 6 ارب روپے تقریبا پونے دوگنا خسارہ بڑھ گیا ہے۔
حکومتی زرائع کے مطابق تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے تین ماہ بعد وزیراعظم کے مثیرذوالفی بخاری نے روز ویلٹ ہوٹل نیویارک جو کہ پی آئی اے ملکیت ہے لینے کی کوشش کی تھی مگر شورمچ گیا اب دوبارہ وہی کوشش ہورہی ہے۔
زرائع کے مطابق پی آئی اے کو پہلے خسارے میں ڈال کر پھر پوری دنیا میں محض اس لئے بدنام کیا گیا اور پوری دنیا میں زیرو کرنے کے بعد اب اس کے اساسوں پر ہاتھ مارا جائیگا تاکہ پی آئی اے کو پرائیوٹائیز کرنے کے بعد پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس کی پراپرٹیز بھی انتہائی کم داموں میں خریدی جاسکیں۔
موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کے 2 سال مکمل ہونے کو ہیں جہاں موجودہ حکومت ملکی معیثت کو سنبھالنے میں ناکام ہوئی وہی یہ ملکی اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور بڑھتے ہوئے خسارے کو روکنے میں بھی ناکام ہوگئی۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے حکومت قومی اثاثوں کو تہس نہس کرکے بیچنا چاہتی ہے اس کی پہلے کوئی مثال ہی نہیں ملتی اور ان حالات میں روزویلٹ ہوٹل کو بیچا جاتا ہے تو کوڑیوں کے مول بکے گا۔
پاکستان میں اب تک کوئی منافع بخش ادارہ شفافیت سے نہیں فروخت ہوا۔ جس کی مثال پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک ہے جو کہ کریمنل نج کاری کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ ان اداروں کی نجکاری کرنے کے بعد کے الیکڑک کو آج بھی اربوں کی سبسڈی اور کم نرخوں پر ایندھن کی فراہمی جاری ہے جبکہ یہ اس رقم سے زیادہ ہے جب یہ ادارہ حکومت کے پاس تھا۔
سوال یہ ہے کہ احتساب و اصلاحات کے نام پر موجودہ حکومت نجی کاروبار کو سبسڈی کیوں دے رہی ہے اور حکومت اپنے اداروں کو سبسڈی دے تو نقصان، نجی ادارے کو دے تو سپورٹ کہلاتی ہے۔
یاد رہے روز ویلٹ ہوٹل اور پی آئی اے ‘سابقہ اوریئنٹ ائیرویز’ ابوالحسن اصفحانی کی ملکیت تھی جو انہوں نے ریاست پاکستان کو عطیہ کی تھیں۔