کراچی: یوں تو سوشل میڈیا پر صحافیوں کے خلاف ٹرولنگ تحریک انصاف کا معمول ہے اور اسی طرح تحریک انصاف کے لیڈر بھی ٹرولنگ کے ساتھ مختلف صحافیوں پر تنقید کے ساتھ بحث کرتے نظر آتے ہیں۔
کبھی تحریک انصاف کے موسمی رہنما اور مشکوک پی ایچ ڈی کے ڈگری یافتہ شہباز گل ٹویٹر پر معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے بحث کرتے نظر آئے تھے اور اسی طرح گزشتہ رات تحریک انصاف کے رہنما وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے فخر درانی نے بے نامی جائیدادوں کے مختلف سوالات کئے جس پرموصوف وزیر سیخ پا ہوگئے۔
فخردرانی کی ٹویٹ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے صحافی فخردرانی چھ ماہ سے ان کی بے نامی جائیدادوں اور آمدنی کی بابت کچھ سوالات پوچھ رہے ہیں۔ پہلے تو فیصل واوڈا کہتے رہے کہ میں تمام کاغذات کے ساتھ آپ سے ملوں گا اور تمام سوالوں کے جوابات دوں گا لیکن اب بدزبانی اور دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔
وفاقی وزیر کی بدزبانی پر فخر درانی نے جواب میں ٹویٹ کی کہ منسٹر صاحب اُدھرادھر کی باتوں کی بجائےمیرے چند سوالوں کا جواب دے دیں۔ ویسے یہی سوال آپ سےعدالتیں اور الیکشن کمیشن بھی پوچھ رہی ہیں۔
کیا آپ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امریکی شہری نہیں تھے؟
کیا آپ کی لندن میں 9 پراپرٹیز تھی جو آپ نے کبھی ڈکلئیر نہیں کیں؟ کیا آپ نے 2018 میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا؟
کیا آپ نے کراچی ڈیفنس میں اپنے ملازم کے نام پر پلاٹس نہیں رکھے ہوئے تھے؟
کیا آپ نے سندھ ہائی کورٹ کواپنی تعلیمی ڈگری امریکہ اورکاغذات نامزدگی میں پاکستانی ظاہر نہیں کی؟
سوال تو اور بھی بہت لیکن آپ جواب دینے سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔
فخر درانی کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے فیصل واوڈا مختلف القابات دیتے رہے۔ جس کے جواب میں رد عمل دیتے ہوئے صحافی عمر چیمہ نے احتساب میں فرق ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ میں لکھا کہا اگر نیب آزاد ہوتا تو میر شکیل الرحمان کی بجائے فیصل واوڈا جیسے لوگ اندر ہوتے جسے آج تک کسی نے بلا کر نہیں پوچھا کہ تم پر جو الزامات اور ان کے دستاویزاتی ثبوت موجود ہیں ان کا جواب ہی دے دو یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔
عمر چیمہ کی ٹویٹ کا جواب دینے کے بجائے فیصل واوڈا بد زبانی، نازیبا القابات اور بدتمیزی کرتے ہوئے مفرور ہوگئے۔
فیصل واوڈا کی بد زبانی اور بداخلاقی پر جہاں دوسرے لوگ مذمت کررہے ہیں وہی وجیہہ ثانی نے لکھا کہ سوال کی چوٹ سے گریں گی سب دیواریں۔ یہ سوال اتنا سچ اورکڑوا تھا کہ معزز وزیرصاحب ایک مخصوص حالت میں سوشل میڈیا پر بدتہذیبی پر اتر آئے۔ وزیر صاحب اسی طرح کے سوال اور رپورٹنگ کی پاداش میں میرشکیل جیل میں ہے۔ یہ سچ کی ادنیٰ قیمت ہے۔ ان کےساتھ جو کریں گےوہ کرلیں گے۔ پہلے سوال کا جواب دیں۔
معروف صحافی مطیع اللہ جان نے رد عمل کے طور لکھا کہ ایک وزیر ایک صحافی پر انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے ہوئے تشدد کی حمایت کرتا ہے اور اس پر اس حوالے سے طنز کرتا ہے بلکہ اس کو یاد کراتا ہے۔ کیا شرمناک بات ہے۔
واضح رہے کہ فیصل ووڈا کی ایک نہیں اور بھی کافی ٹوئٹس ہیں اور جو اسی قسم کی زبان میں ہیں۔ اس حکومت سے کچھ بھی پوچھو یہ پوچھنے والوں کو لتاڑنے پر اتر آتے ہیں۔