تحریر: رفیع شاکر
عمران خان آپ نے میدان نہیں چھوڑنا پورے پانچ سال اپوزیشن کے چوروں کو رولانا ہے اور ان سے کرپشن کا پیسہ وصول کرکے عوام کو مکمل ریلیف دینا ہے۔
اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے نا کہ مہنگائی۔
جب کرپشن ہوتی ہے وسائل چوری ہوجاتے ہیں عوام سے لیا گیا ٹیکس کا پیسہ چوری ہوجاتا ہے ملکی ذخائر کی آمدنی چوری ہوجاتی ہے۔ جب ناقص میٹریل لگا کر کنسٹرکشن کی جاتی ہے تو نقصان کے ساتھ مہنگائی بھی ہوتی اس میں بھی شک نہیں ہے کہ عام آدمی کو یہ باریکیاں سمجھ میں نہیں آتیں اور اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کی وجہ سے بچوں کو پالنا گھر کا انتظام چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ خاص طور پر عام آدمی اور تنخواہ دار چھوٹا طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے جو موجودہ دور حکومت میں متاثر ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حالات پر آنے والی حکومت میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے چاہے وہ بے نظیر کا ہو زرداری کا ہو نواز شریف کا ہو جمہوریت کے ہر دور میں کی عوام کی دال پتلی ہی ہوئی ہے۔ البتہ جس دور کو فوجی دور یا آمرانہ دور حکومت کہا جاتا ہے ان ادوار میں ہمیشہ ہی عوام خوشحال ہی رہی کوئی مانے یا نا مانے یہی حقیقت ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سیاستدانوں کے شاہانہ اخراجات اور کرپشن کا ہونا ہے ظلم زیادتی کا ہونا ہے اور اس ملک کو وہی دور ہی بہتری دلوا سکتے ہیں جس میں ان کرپٹ سیاستدانوں سے جان چھوٹی رہتی ہے۔
یہ تحریر لکھنے پر۔۔۔۔۔
ایک دوست نے مجھے انباکس کیا اور اعتراضات اٹھانا شروع کردیے بہرحال ان کی میں قدر بھی کرتا ہوں کچھ مسائل بھی ضرور ہیں۔ موجودہ حکومت میں عمران خان کو عوام کے خود بھی قریب آکر سننا چاہیے اور فوری احکامات دینے چاہیے۔ مشیروں وزیروں اور بیوروکریسی کی اوکے رپورٹوں پر بھی انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
کسی دوست نے مجھے کہا کہ رفیع بھائی ملک کا بیڑا غرق ہو گیا ہے اب تک عمران خان نے کس کو پکڑا ہے کس کو سزا ملی ہے کس سے پیسہ واپس لیا ہے؟۔
میں نے کہا کہ عمران خان اور اس کی کابینہ شائد نااہل ضرور ہے کرپٹ نہیں ہے مگر عمران خان کو اپنی ہی کچھ کرپٹ کابینہ بیورو کریسی ہی نہیں چلنے دے رہی۔
تو دوست نے کہا کہ’ کابینہ بھی اسی کی ہے اول بات کابینہ کے ہوتے ہوئے مشیران کی ضرورت نہیں تھی وہ ابھی اتنے زیادہ پھر بھی اتنی بڑی کابینہ؟۔
میں نے کہا کہ عمران خان کے پاس سادہ اکثریت نا ہونے کی وجہ سے سب کو خوش بھی کرنا ہے اپنے خاص اہل لوگوں کے ذریعے کام چلانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس کو بھی پتا ہے کابینہ میں وہی کرپٹ لوگ ہیں اور بہت سے مسائل ہیں مگر اس کی نیت پر آپ ہم شک نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کی سوچ اچھی ہے وہ اس ملک قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر مجبور ہے۔
عمران خان ایک حقیقی لیڈر ہے۔
ہم کو اس کی ابھی قدر نہیں ہے ایسا مخلص انسان جو اپنے ملک قوم کا سوچتا ہے نصیب والوں کو ملتا ہے۔
مگر شائد ہم پاکستانی اس لائق نہیں ہیں۔
ہم کو وہی چور ڈاکو مسٹر ٹین پرسنٹ زرداری چاہیے کرپٹ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور کلیبر کوئین جھوٹوں کی رانی مریم صفدر چاہیے وہی دس دس لاکھ کی لسی پی جانے والا فضل الرحمان چاہیے وہی سفاک قاتل الطاف حسین چاہیے قائم علی شاہ مراد علی شاہ چاہیے کرپٹ گیلانی چاہیے وہی شاہد خاقان عباسی چاہیے۔
شائد ہم پاکستانیوں کو لیڈر نہیں سیاستدان چاہیں
جو ایک وقت پر ایک دوسرے کے دشمن اور اپنے اوپر وقت پڑنے کرپشن بچانے کے لیے جانی دوست بن جاتے ہیں۔ آج بھی اگر عمران خان احتساب روک دے این آر او دے دے تو وہ سب کو اچھا لگنے لگے گا اور سب اس کے پیچھے کھڑے ہونگے۔ ہم ناشکرے پاکستانی ہیں ہم کبھی شاید ترقی نہیں کرسکتے اور نا کرسکے ہیں۔
ان ستر سالوں میں ہمارے برابر بننے آزاد ہونے والے یا کم ترقی یافتہ ملک بنگلہ دیش، چائنا، ملائشیا اور انڈونیشیا حتی کہ امریکہ بھی جس کی شروع شروع میں کرنسی پاکستان سے بھی کم تھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہم مفاد پرست جاہل عوام ہی ہیں اور پھر سیاستدان ہیں جو خود تو کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر ہماری حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔
میں بحیثیت عام شہری و پاکستانی جو کسی کا نا سپورٹر ہوں نا ووٹر آج بھی یہی کہتا ہوں کہ عمران خان آپ نے میدان نہیں چھوڑنا پورے پانچ سال اپوزیشن کے چوروں کو رولانا ہے اور ان سے کرپشن کا پیسہ وصول کرکے عوام کو مکمل ریلیف دینا ہے۔ آج بھی عام آدمی کی یہی سوچ ہے۔