ویب ڈیسک
سینیٹ انتخابات پیچیدہ، ترجیحی اور منتقل ووٹوں کے طریقے پر مبنی ہے۔ جس کے تحت خالی نشستوں کی تعداد سے قطع نظر ہر ووٹر کا صرف ایک ووٹ ہے لیکن وہ دوسرے امیدواروں کے حق میں پہلی کے بعد دوسری، تیسری اور نمبر وار بنیاد پر اپنی ترجیح کا اظہار کرسکتا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے اس طریقے کو میوزیکل چیئر سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے یعنی سب سے پہلے مطلوبہ کوٹہ حاصل کرنے والا انتخاب جیتے گا مگر اس کے فاضل ووٹ اگلی ترجیح والے امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے۔
میوزیکل چیئر کی طرح بالترتیب خالی نشستوں پر تب تک گنتی جاری رہے گی جب تک امیدواروں کی طے شدہ تعداد کامیاب نہ ہوجائے۔ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے طریقہ کار کے تحت سادہ اکثریتی ووٹ درکار ہوتے ہیں یعنی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا فاتح قرار پاتا ہے۔ دوسرے امیدواروں کے ووٹ ضائع ہوجاتے ہیں مگر سینیٹ کے منتقل شدہ ووٹ کے طریقے میں کامیابی کا انحصار سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے طے شدہ کوٹے کے ووٹ یا پوائنٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔
پہلے طریقے میں فاتح کے علاوہ باقی تمام امیدواروں کے ووٹ ضائع ہوجاتے ہیں مگر سینیٹ انتخاب میں مطلوبہ کوٹے سے زائد ملنے والے بیلٹ پیپر دوسرے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ووٹر کی پہلی ترجیح نہیں بلکہ دوسرے اور تیسری ترجیح بھی اہم ہوتی ہے، سب سے پہلے سینیٹ انتخابات کے طریقے یا فارمولے کو سمجھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر سندھ کا ایوان 168 اراکین پر مشتمل ہے جو جنرل سیٹ پر 7، ٹیکنو کریٹ پر 2 اور خواتین کی مخصوص نشست پر 2 امیدواروں کا تعین کرے گا، جنرل، ٹیکنو اور خواتین کی نشست پر فتح حاصل کرنے کے لیے درکار ووٹ یا کوٹے کی تعداد بھی مختلف ہے۔
سینیٹ انتخابات میں ہر رکن کے ایک ووٹ کی ویلیو 100 پوائنٹس کی ہوتی ہے اگر جنرل سیٹ کے لیے درکار ووٹ یا کوٹے کا تعین کرنا ہے تو اس کے لیے ایک فارمولے پر عمل کیا جائے گا۔ 168 اراکین کو 100 سے ضرب دے کر حاصل نمبر کو 8 پر تقسیم کرینگے اور پھر اس میں 1 کو جمع کرلیا جائے گا۔ یعنی 1+8/100*168، اس طرح درکار ووٹ یا کوٹے کی تعداد 2101 پوائنٹس سامنے آجائے گی یعنی امیدوار کو 21 ووٹ یا 2101 پوائنٹس حاصل کرنا ہونگے۔
سندھ اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیتے ہیں۔
168 کے ایوان میں 99 اراکین کا تعلق پیپلز پارٹی، 30 تحریک انصاف، 21 ایم کیو ایم پاکستان، 14 جی ڈی اے، 3 تحریک لبیک اور 1 رکن متحدہ مجلس عمل کا ہے۔ اراکین کی موجودہ تعداد کے اعتبار سے پیپلز پارٹی 8404 پوائنٹس کے ساتھ جنرل نشست پر 4 جبکہ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 1،1 نشست حاصل کرسکتی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن 6303 پوائنٹس کے ساتھ جنرل سیٹ پر 3 جبکہ ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی نشست پر 1،1 امیدوار کو کامیاب کراسکتی ہے۔ اس وقت اپوزیشن کے پاس 6500 پوائنٹس موجود ہیں مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب اپوزیشن ارکان متحد رہیں اور قیادت کے فیصلوں کے تابع ہوں۔
سندھ سے سینیٹ کے11 ارکان ریٹائر ہوں گے۔
آئندہ ماہ سندھ سے سینیٹ کے 11 ارکان رٹائر ہورہے ہیں جن میں سے 7 کا تعلق پیپلز پارٹی اور 4 کا ایم کیو ایم پاکستان سے ہے۔ آئندہ ماہ ریٹائر ہونے والے پیپلز پارٹی اراکین میں شیری رحمان، سلیم مانڈوی والا، فاروق ایچ نائیک، رحمان ملک، اسلام الدین شیخ، گیان چند اور سسی پلیجو شامل ہیں جبکہ خوش بخت شجاعت، بیرسٹر محمد علی سیف، محمد عتیق اور نگہت مرزا کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔
قابل منتقل ترجیحی ووٹ کے نظام کا سہرا تھامس رائٹ کے سر ہے۔
سینیٹ انتخابات یا قابل منتقل ترجیحی ووٹ کے انتخابی نظام کا سہرا 19 ویں صدی میں تھامس رائٹ ہل دنیا کے سامنے لے کر آئے تھے۔ اس طریقے کو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جرمنی، آئرلینڈ اور مالٹا میں بھی اپنایا گیا، بعض انجمنوں کے انتخابات بھی اسی طریقے کے تحت منعقد کرائے جاتے ہیں۔
معمولی سی غلطی ووٹ کو منسوخ یا مسترد کرسکتی ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے پولنگ کے وقت معمولی سی غلطی ووٹ کو منسوخ یا مسترد کرسکتی ہے یا پھر ووٹ دوسرے اور تیسرے ترجیح ووٹ کے لیے ناکارہ ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن کے قوانین اور ضابطوں کے مطابق جنرل، ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر ووٹ کیلیے ہر رکن کو 3 بیلٹ پیپر ملیں گے۔ ہر رکن اپنے پہلے پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے باکس میں اپنی پہلی ترجیح پر ایک لکھے گا پھر دوسرے ترجیحی امیدوار کے سامنے 2 تحریر کرے گا اسی طرح وہ چاہے تو تمام امیدوار یا پھر مخصوص تعداد کے لیے باالترتیب اعداد لکھے گا اگر کسی رکن نے 1 کا عدد 2 امیدوار کے سامنے تحریر کردیا یا پھر اپنی نمبرنگ 2 سے شروع کی تو ایسا ووٹ منسوخ کردیا جائے گا۔
پیچیدہ طریقہ نو آموز ارکان اسمبلی کے لیے بھی سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔
سینیٹ انتخابات کا پیچیدہ طریقہ نو آموز اراکین اسمبلی کے لیے بھی سمجھنا آسان نہیں ہوتا البتہ سیاسی میدان کے پرانے کھلاڑی خاص کر کئی مرتبہ اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے والے اراکین اس انتخابی سائنس کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اپنی جماعت کے دیگر اراکین کے لیے خاص ترتیب سے ووٹ کی ترجیح طے بھی کرتے ہیں تاکہ دوسری اور تیسری ترجیح بھی ان کے باقی امیدواروں کی فتح میں کردار ادا کرے۔ بڑی اور آزمودہ سیاسی جماعتوں کی ٹیم اس سائنس کو سلجھاتی بھی ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اراکین کو دوسرے یا تیسرے ترجیحی ووٹ کے لیے رضامند کرکے نوآموز ارکان کو الجھا بھی دیتی ہے۔