پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں حکومت کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے لاپتہ افراد کے مسٔلے کو بھی اجاگر کرتے ہوئے اس پر بڑی جرات سے اظہار خیال کیا اور اپنے مطالبات سامنے رکھے۔
جواب میں وفاقی وزراء نے تو جو کیا کیا احسان اللہ احسان کی جانب سے انہیں بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے کے ساتھ قتل کی دھمکی دی گئی، یہ بہت حیران کن اور تشویش ناک بات ہے۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ احسان اللہ کی اس دھمکی آمیز ٹوئٹ پر ہر طرف خاموشی ہے اور میڈیا پر بھی سناٹا ہے جو اس کے اصل کرداروں سے تعلق کا پتہ دیتا ہے۔
میڈیا نے تو بلاول بھٹو کے لاپتہ افراد کے مؤقف کو کور بھی نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اسے اپنے ٹالک شوز کا حصہ بنایا ہے۔ واقفان حال تمام کڑیاں جوڑیں پھر دیکھیں کھرا کہاں جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب اسامہ کو شہید قرار دے چکے ہیں اور کچھ وزراء نے کہا کہ زبان پھسل گئی تھی لیکن قومی اسمبلی میں اپنی دوسری تقریر میں وزیراعظم نے اس کی تصحیح نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ہوش وحواس میں یہ بات کہی گئی تھی۔
لاپتہ افراد پر حکومت اپنی بے بسی پہلے ہی ظاہر کرچکی ہے یہاں تک کہ اپنی اتحادی پارٹی کو بھی چھوڑ چکی ہے اور اگر ریاست دہشت گردوں کے خلاف اپنی پالیسی میں کلئیر ہے تو نہ صرف وزیراعظم بلکہ آرمی چیف کی طرف سے بھی احسان اللہ احسان کی قتل کی دھمکی پر مبنی ٹوئٹ کی مذمت کرنی چاہیے۔ بلاول بھٹو سے اظہار یک جہتی کرنا چاہئے انہیں ریاست کی جانب سے مکمل فول پروف سیکورٹی مہیا کرنی چاہیے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔