کینالز کے معاملہ پر مشترکہ مفادات کونسل میں نئی نہروں نکالنے کا فیصلہ 6 ماہ کیلئے مسترد کردیا گیا۔ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی نئی نہر اس وقت تک تعمیر نہیں کی جائے گی جب تک کہ مشترکہ مفادات کونسل اجلاس نہ ہوجائے۔
مشترکہ مفادات کونسل اجلاس کے فیصلے مشترکہ مفادات کونسل نے وفاقی حکومت کی پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے “وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی نئی نہر اس وقت تک تعمیر نہیں کی جائے گی جب تک کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) سے باہمی اتفاقِ رائے نہ ہو جائے جبکہ یہ طے کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت باہمی سمجھوتے کے بغیر مزید پیش رفت نہیں کرے گی۔
وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں سے رابطے میں ہے تاکہ پاکستان بھر میں زرعی پالیسی اور آبی وسائل کے انتظام کے لیے ایک طویل مدتی متفقہ روڈ میپ تیار کیا جا سکے۔ تمام صوبوں کے پانی کے حقوق 1991 کے پانی کے معاہدے اور 2018 کی قومی آبی پالیسی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے محفوظ کیے گئے ہیں۔
تمام صوبوں کے خدشات کو دور کرنے اور پاکستان کی غذائی اور ماحولیاتی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے، کمیٹی میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی شامل ہوگی جبکہ یہ کمیٹی پاکستان کی طویل مدتی زرعی ضروریات اور تمام صوبوں کے پانی کے استعمال سے متعلق تجاویز دے گی، اور ان دونوں متفقہ دستاویزات کی روشنی میں کام کرے گی۔
پانی ایک نہایت قیمتی وسیلہ ہے اور آئین بنانے والوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ لازم قرار دیا کہ تمام آبی تنازعات کو باہمی افہام و تفہیم سے خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔ کسی بھی صوبے کے خدشات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین مکمل جانچ پڑتال کے ذریعے دور کیا جائے۔
مندرجہ بالا کے تناظر میں، غور و خوض کے بعد، کونسل نے فیصلہ کیا کہ 7 فروری 2024 کو نئی نہروں کی تعمیر کے لیے دی گئی عبوری ایکنیک منظوری اور 17 جنوری 2024 کو منعقدہ اجلاس میں جاری کردہ ارسا کا پانی دستیابی سرٹیفکیٹ واپس کر دیا جائے۔ منصوبہ بندی ڈویژن اور ارسا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کو یقینی بنایا جائے تاکہ قومی یکجہتی کے مفاد میں اور کسی بھی خدشے کو دور کرنے کے لیے باہمی اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے۔