اسلام آباد: صحافی وحید مراد نے پیشی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیس منٹ پہلے مجھے ان کے حوالے کیا گیا ہے، پولیس دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوئی۔میں نے کہا اپنی شناخت کروائیں، میری ساس کینیڈا سے علاج کرانے کے لیے آئیں ہیں، میری ساس کینسر کی مریضہ ہیں، ساس کو بھی مارا گیا بیس منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا۔
اسلام آباد سے لاپتہ صحافی وحید مراد کی بازیابی
کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، درخواست لاپتہ صحافی وحید مراد کی ساس عابدہ نواز کیجانب سے درخواست دائر کی گئی۔ ایڈوکیٹ ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے درخواست دائر کی۔
درخواست سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، آئی جی اسلام آباد، ایس ایچ او کراچی کمپنی کو فریق بنایا گیا۔ رات 2 بجے چند افراد گھر آئے، وحید مراد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ کراچی کمپنی تھانے میں درخواست دی لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا۔
درخواست کے بعد وحید مراد کو ایف آئی اے کے جج عباس شاہ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ وحید مراد کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
سماعت کے موقع پر جج عباس شاہ وحید مراد کو کب گرفتار کیا گیا، جس پر کل رات گرفتار کیا گیا۔
ایف آئی اے حکام نے بی ایل اے کی پوسٹس اور بلوچستان کے حوالے سے وحید مراد نے پوسٹس کیں۔ ایکس اور فیس بک اکائونٹ کے حوالے سے تفتیش کرنی ہے۔ وحید مراد کا موبائل بھی ریکور کرنا ہے اور وحید مراد کا دس روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے، جس پر وکیل ایمان مزاری نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ وحید مراد صحافی ہیں ان کا ریمانڈ کیوں چاہئے۔
وکیل ہادی علی چٹھہ عدالت میں بتایا کہ صحافت اس ملک میں جرم بن چکا ہے اور وکیل ایمان مزاری کیا ایف آئی نے پہلے وحید مراد کو نوٹس جاری کیا تھا۔
وکیل حادی علی چٹھہ نے کہا کہ جرم ہوا ہی نہیں تو عدالت ڈسچارج بھی کرسکتی ہے اور جوڈیشل بھی کر سکتی ہے اور صحافیوں کو حراساں کرنے کیلئے گرفتار کیا جاتا ہے۔