تحریر: عظمت خان
آئی ایس آئی کے اکنامک ونگ کی نگران حکومت کو پیش کی جانیوالی حیران کن رپورٹ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیر گردش تمام کرنسی کا ایک تہائی افغانیوں کے پاس ہے۔ جو تقریباً تین ہزار ارب روپے بنتے ہیں۔ وہ جب چاہیں بڑی تعداد میں اس پر ڈالرز خرید کر پاکستان میں کرنسی کی ویلیو گرا دیتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ سمگلنگ کر کے بھی پاکستان سے ڈالرز مسلسل افغانستان منتقل کر رہے ہیں جس سے افغانستان کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ گویا ہم مرتے مرتے بھی افغانیوں کو اپنا خون پلا رہے ہیں۔
ایک کروڑ سے زائد افغانیوں کو پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلانے میں اہم ترین کردار ‘نادرا’ نے ادا کیا ہے جس نے تقریباً ہر افغانی کو پاکستان کا آئی ڈی کارڈ بنا کر دیا ہوا ہے۔ سب سے پہلے افغانیوں کے نادرا کارڈ بلاک کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ انھیں مخصوص تعداد اور مخصوص شرائط کے ساتھ ایک علاقے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں 50، 60 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پورے ملک میں کہیں پر بھی بلا روک ٹوک (جائز و ناجائز، ہر طرح کا) کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی اور اس میں وقت ماہ و سال کی قید نہیں کسی تجدید کی ضرورت نہیں تھی۔ پچھلے 40، 50 سالوں سے افغانیوں نے اس ملک کے وسائل بڑی بے دردی سے لوٹے اور پاکستان سے نفرت بھی بےحد و بےحساب کی۔
پاکستان کے 80 فیصد مسائل ان افغان پناہ گزینوں کے پیدا کردہ ہیں۔ آج دہشت گردی، پیسے کی گراوٹ اور معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ یہ افغانی ہیں۔ اگست 2021 میں جب طالبان نے دو دہائیوں بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تو امریکہ اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کے ذخائر اس خوف سے منجمد کردیے کہ یہ فنڈ عسکریت پسند گروپ دہشت گردی کے لیے استعمال کرے گا۔ افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 10 سے 15 ملین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی اس ضرورت میں سے نصف پاکستان سے افغانی منی لانڈر پوری کرتے ہیں۔
افغانی کوئلہ اور دوسری اشیاء افغانی کرنسی میں خریدتے ہیں اور کچھ منافع رکھ کر پاکستانی کرنسی میں فروخت کرتے ہیں، بعد ازاں وہ روپے کو امریکی ڈالر میں تبدیل کرکے روایتی طریقے سے افغانستان ترسیل کرتے ہیں۔ کیونکہ طالبان انھیں پاکستانی کرنسی ملک میں واپس لانے کی اجازت نہیں دیتے۔
پاکستان سے اس غیر قانونی بہاؤ سے غیر ملکی ذخائر میں کمی اور روپے پر پر دباؤ میں اضافہ ہوا، ملکی کرنسی ریکارڈ کم ترین سطح پر گر رہی ہے اور معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ چونکہ افغانستان کا تمام تر دارومدار پاکستان پر ہے اس لیے افغانستان مختلف حربوں سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرتا ہے تاکہ پاکستان افغانستان سے کبھی جان نہ چھڑا پائے۔
افغانستان میں اس وقت کالعدم ٹی ٹی پی، داعش خراسان بی ایل اے اور دیگر انتہا پسند گروپ اپنی پوری طاقت سے موجود ہیں۔ افغان حکومت ان گروپوں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کو پڑوسی ملکوں کے خلاف بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ یہ گروپ پڑوسی ملکوں سے افغانستان کے لئے فوری ضرورت کی اشیا کی سمگلنگ میں معاونت کرتے ہیں اس کے بدلے میں افغان حکومت انہیں اپنی حدود میں قیام کرنے پر اولا بازپرس سے گریز کرتی ہے ثانیا ہرات، کابل اور قندھار میں غیر ملکی اسلحہ کی منڈیوں سے انہیں جدید اسلحہ خریدنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔
واضع رہے کہ یہ منڈیاں امریکہ اور نیٹو ممالک کی جانب سے چھوڑے گئے جدید اسلحے پر مشتمل ہیں
اور یہ اسلحہ اور افغانستان کی محفوظ پناہ گاہ پاکستان کے لیے استعمال ہوتی ہے
پاکستان کو اندرونی طور پر بھی افغانیوں کی جانب سے بے پناہ سماجی مسائل کا سامنا ہے ، منشیات فروشی، جسم فروشی کا مکرو دھندا، انسانی سمگلنگ ہو یا گاڑیوں کی سمگلنگ اغوا، برائے تاوان، منی لانڈرنگ ہر جگہ یہ افغانی ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف یہ لوگ مختلف جرائم میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ہمارے پورے انفراسٹرکچر پر قابض ہیں۔ ہزاروں افغانیوں نے مختلف طریقوں سے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے پاکستان میں پلازے مارکیٹیں دکانیں خریدی آج کپڑے سے لیکر الیکٹرانکس تک ہر کاروبار پر خان جی کا بورڈ ہے۔ جبکہ پاکستانی ان کے ہاں چند ہزار پر ملازم ہے۔
پاکستان کو اب افغان مہاجرین کے وطن واپسی کے بارے واضح پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور ہم اپنے ہی ملک میں پرائے ہو جائیں۔ پاکستان زندہ باد