تحریر: شبینہ فراز
کراچی چڑیا گھر کی ہتھنی نور جہاں کی بیماری اور موت یقینا ہم سب کے لیے تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں ہے۔ خصوصا چڑیا گھروں میں کاوان، سہیلی، سوزی اور اب نورجہاں، یہ سب ہاتھی ایک تکلیف دہ صورت حال سے گزر کر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور یہ واضح ہوچکا ہے کہ ہمارے پاس یقینا ہاتھیوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے مطلوبہ مہارت اور شاید وسائل بھی موجود نہیں۔ شاید ہمارے مہاوت ابھی اسی دور میں زندہ ہیں جب ہاتھیوں کو مارپیٹ کر اور نیزے چبھو کر قابو کیا جاتا تھا۔
نور جہاں کی بیماری اور موت نے ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کردیا کہ کراچی چڑیا گھر کو بند کیا جائے اور یہ جانور کسی اور جگہ منتقل کردیے جائیں۔ پھر۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ شہر کے بیچوں بیچ 43 ایکڑ کی وسیع و عریض اراضی کا کیا ہوگا۔ کراچی والے اس کاجواب جانتے ہیں۔ یہ قیمتی ترین زمین بلڈرز مافیا کے ہتھے چڑھ جائے گی(ماضیی میں کئی بار یہ کوششیں ہوتی رہی ہیں) اور یہاں بلند بالا عمارات کھڑی ہوجائیں گی۔ کنکریٹ کے جنگل بنے اس شہر میں ایک اور جنگل کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس علاقے میں پہلے ہی فضائی آلودگی اتنا ہے کہ لوگوں کے لیے سانس لینا بھی ایک کاردارد ہے مزید بننے والی یہ بلڈنگیں رہی سہی ہوا کا راستہ بھی روک لیں گی۔
لہذا چڑیا گھر کے بند کرنے کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ اس جگہ کو قانونی طور پر ایک باغ قرار دیا جائے۔
ویسے بھی تاریخی طور پریہ باغ ہی تھا۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر یہ جگہ ایک نباتاتی باغ کے لیے مخصوص تھی اور اب بھی دو ہزار سے زائد تناور درختوں کا جو ذخیرہ یہاں موجود ہے وہ بدلتے موسموں سے لڑتے کراچی کے لیے کسی آکسیجن کے کارخانے سے کم نہیں ہے۔
اس نباتاتی باغ کا خزانہ 2,311 بڑے درختوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نیم کے 111، املی کے 75، برگد کے 55، السٹونیا کے 61، پیلٹو فورم کے 19، ملیٹا کے 4، لیگنم کے 71، مولسری کے 2 ، گل موہر کے 7، بانس کے 61، جامن کے 11، املتاس کے 7، اشوک کے 1100، ناریل کے 5، گلر کے 9، چمپا کے 2، پیپل کے 9، بکائن کے 9، سفیدہ کے 7، بیلگری کے 3، کیتھ کا ایک، بوتل پام کے 71، پاکر کے 7، کارڈیا کے 30، کھرنی کے 2 ، انڈین ٹیولپ کے 5، برنا کے 11، جنگل جلیبی کے 511، کینن بال کے 2، ملیٹیا پام کے 19، فین پام کے 21 اور پنک کیسیا کے 5 درخت موجود ہیں۔