کراچی: اسپیشل جج فار بینک افنسز کراچی نے ہیسکول کے 18 ارب روپے مالیت کے مبینہ اسکینڈل میں ملوث 18 ملزمان کی ضمانتوں کی منسوخی کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
فیصلہ عدالت کے پریزائڈنگ افسر محترم عبدالکریم انصاری نے 20 فروری کو صادر فرمایا تھا۔ 12 صفحات پر مشتمل فیصلے میں سب سے زیادہ فوکس سرکاری بینک (نیشنل بینک آف پاکستان) کے افسران کے کردار کو بیان کرنے پر رہا۔ فیصلے کے آخری صفحہ نمبر 12 کا آخری پیراگراف نہیات اہم ہے۔ مذکورہ پیرا کچھ یوں ہے کہ ‘پراسیکیوشن (ایف آئی اے) نے جو الزامات لگائے کہ این بی پی نے ہیسکول کی شریک کمپنی بائکو کی 166 جعلی ایل سیز کھولیں تاکہ ہیسکول کی لیکویڈیٹی بڑھائی جا سکے اور جو کمپنی کے کیپٹل اخراجات میں معاون ظاہر ہو سکی۔ حیرت انگیز طور پر بینک افسران نے ان جعلی ایل سیز کے کھلنے اور ان کی رقوم کی واپس ہیسکول کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے پر کوئی اعتراضات اٹھائے اور نہ ہی باز پرس کی۔ ایل سیز کے لئے جعلی کاغذات بینک میں جمع کروائے گئے۔ ہیسکول کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے پچھلی تاریخوں کے جعلی پرچیزنگ آڈر جمع کروائے گئے۔ کھاتوں میں بوگس فکسڈ اثاثاجات ظاہر کئے گئے۔ این بی پی کے افسران نے فراڈ اور بدیناتی کے زریعے ہیسکول کو فنڈڈ اور نان فنڈڈ فوائد دیئے جو ملین سے بڑھ کر بلین روپے تھے اور جو بغیر کسی سکیورٹی کے دیئے گئے۔ ان افسران کی وجہ سے قومی خزانے کو 18 ارب کا نقصان ہوا۔ لہذا بادی النظر ملزمان اس گھپلے میں ملوث رہے۔
تفصیلی فیصلے میں مذید کہا گیا ہے کہ انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کا کردار شفاف تھا۔ مجھے کوئی جواز نہیں ملا کہ میں ملزمان کو ضمانت قبل از گرفتاری پر مزید کوئی ایکسٹرا ریلیف دوں۔ لہذا ملزمان کی پہلے سے منظور شدہ ضمانت قبل از گرفتاری کے احکامات منسوخ کئے جاتے ہیں اور عدالت میں پیش تمام 18 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ فیصلے میں درج ایف آئی آر کی تفصیلات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں اہم پہلو یہ تحریر ہے کہ این بی پی نے مجموعی طور پر 207.71 بلین روپے کی 362 جعلی ایل سیز کھولیں جن میں ہیسکول کی 196 جس کی مالیت 95.77 بلین روپے اور بائیکو پٹرولیم کی 166 ایل جس کی رقم 112.02 بلین روپے رہی۔