تحریر: علی رضا بھٹی
ملکی سیاسی منظرنامے میں کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب عمران خان کیخلاف کوئی نہ کوئی مشکل ان کے راستے میں حائل نظر آتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی گرفتار توشہ خانہ کیس میں تھے لیکن اس میں انہیں جیسے ہی رہائی کا پروانہ جاری ہوا ادھر سے سائفر کیس میں انہیں اندر ہی دھرلیا گیا۔ نہ صرف پی ٹی آئی چیئرمین کیلئے ایک کے بعد ایک مشکل سامنے آرہی بلکہ ان کی پارٹی کیلئے بھی زمین روز بروز تنگ ہورہی ہے۔ حالات اب اس نہج پر ہیں کہ پارٹی میں صرف چند ہی نمایاں نام باقی بچے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو روپوش ہیں جبکہ کچھ ضمانتوں پر ہیں اور کچھ نے پارٹی اور سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا ہے مگر اس سب کے باوجود سیاسی پنڈت اس پر بضد ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹر اب بھی عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب کہ حقائق کو دیکھیں یا حالات کا جائزہ لیں تو ہوا کا رخ کہیں اور ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف اس وقت جن مشکلات کا شکار ہیں ان سے نکلنے کیلئے انہیں طویل قانونی سفر طے کرنا پڑے گا۔ ایک سابق وزیراعظم کا سائفر مقدمے میں اب جیل کی حدود میں ہی ٹرائل ہوگا۔اور آج اس کیس کی جیل میں ہی سماعت بھی ہوئی۔ اس سماعت کو عمران خان کی ٹیم نے مسترد کردیا اور اسے یکسر غیرقانونی اور سیاسی انتقام پر مبنی عمل قراربھی دیا ہے۔
ذرائع یہ دعوی کررہے ہیں کہ سائفر مقدمے میں عمران خان کیلئے کافی مشکلات آنے والی ہیں۔عمران خان کے متعلق سوشل میڈیا پر ایک کمپین بھی جاری ہے جس میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر مائنس کیا جارہا ہے اور آئندہ الیکشن سے باہر رکھنے کیلئے ہی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ تو ایک لاڈلے کی کہانی ہے جو صرف 4 سال تک اسٹیبلشمنٹ کو پیارا ہوا مگر یہاں سیاسی حلقوں کی خبر رکھنے والے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی پر عمران خان سے زیادہ مشکل وقت آسکتا ہے۔ جس کے لیے پیپلز پارٹی کو تیار رہنا چاہیے۔ یہ وہ پیپلز پارٹی ہے جو دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کی پیاری ہے۔ جو یہ کہتی رہی کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ سے پیار ہوا تھا، اقرار ہوا تھا۔مگر یہ پیار کیا ختم ہو جائے گا؟۔
کیا پیپلزپارٹی پر مشکلات آنے والی ہیں؟ اس حوالے سے بعض ذرائع یہ دعویٰ کررے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے قریبی لوگوں نے آصف زرداری کو بیرون ملک جانے کامشورہ دے دیا ہے۔ آصف زرداری جو اس وقت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور ملکی سیاست پر گہری چھاپ رکھتے ہیں۔ انہیں سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر بھی سمجھاجاتا ہے، عدم اعتماد کی تحریک میں آصف زرداری کا کلیدی کردار بھی رہا ہے۔ 16ماہ تک پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم حکومت کو قائم رکھنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ گزشتہ سال میں آصف زرداری نے جواقدامات کئے اس پر بہت سے لوگوں نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا طعنہ بھی دیا۔ اب ان کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ انہیں ملک چھورنے کا بھی کہا جارہا ہے اور ان کی پارٹی کے 50 کے قریب رہنماء نیب کے ریڈار پر ہیں، جن کیخلاف جلد کاروائیوں کا آغاز کیا جائے گا۔ ان تمام معاملات کے بعد اگر مقتدر حلقون نے ن لیگ کو پنجاب میں دوبارہ مکمل بحال کر دیا گیا تو زرداری صاحب پھر مشکل حالات میں یہی کہیں گے کہ کہانی سنو۔۔ ۔ زبانی سنو۔۔ ۔ کیونکہ اب پیار زوال میں بدل چکا ہوگا۔