تحریر: مدثر غفور
نوٹ: (اس تحریر کا مقصد کسی کو سرٹیفیکیٹ دینا، کسی کی تائید یا کسی کی مخالفت کرنا نہیں ہے)۔
چند دن پہلے ٹویٹر پر دو خواتین کے درمیان ایک سیاسی جماعت کی سوشل میڈیا ایکٹی وسٹ و بلاگر اور ایک خاتون صحافی کے افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا و تشدد بارے بغیر سفارتی اطلاع کے ٹیکسی پر سفر کرنے کے سوال کے جواب میں ٹویٹ جنگ چھڑ گئی۔ اس ٹویٹ جنگ میں بات صحافت کے نام پر ٹویٹر ویریفیکیشن کے بلیو ٹک تک جا پہنچی جس میں ایک اور خاتون صحافی بھی کُود پڑیں۔ خاتون صحافی نے ٹویٹر ویری فائڈ آکائونٹ کو مینشن کرتے ہوئے حال ہی پاکستان میں پیشہ ورانہ تحقیقاتی رپورٹنگ کے زریعے تیزی سے اُبھرنے والی ویب سائٹ ‘دی پاکستان اُردو’ جس کو پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر سینئیر صحافیوں کی تائید حاصل ہے کو ڈمی ویب سائٹ کا سرٹی فیکیٹ بھی جاری کردیا۔ اس ٹویٹر جنگ کو سینئیر صحافیوں سمیت مجھ جیسے صحافت کے طالب علم بھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ٹویٹ پڑھتے رہے۔
اس ٹویٹر جنگ کی وجہ افغان سفیر کی بیٹی کا مبینہ اغوا اور اغوا کی اعلی سطحی تحقیقات سے قبل ہی وہ سوالات تھے جو اصل وجہ سے ہٹ کر صحافت اور ٹویٹر ویریفائڈ آکائونٹ تک جا پہنچے۔ حیرت کی بات تھی کہ وہ صحافی خواتین جو پیشہ ورانہ طور پر مختلف الیکٹرونک میڈیا چینلز سے وابسطہ رہیں صحافت اور بلاگر میں نمایاں فرق رکھنے کے بجائے بحث برائے بحث میں اُلجھ گئیں۔
آج دنیا جس طرح ورچوئل ورلڈ میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اب صحافت بھی شہری صحافت (سیٹزن جرنلسٹ) میں عملی طور پر تبدیل ہوگئی ہے جسے عام فہم ٹیکنالوجیکل زبان میں آن لائن جرنلزم کہا جاتا ہے۔ پیشہ ور صحافی کسی بھی اخبار یا الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھتا ہوں وہ اب بھی پیشہ ورانہ صحافت کے رموز کے دائرے میں صحافت کرتا ہے جبکہ شہری صحافت کرنے والا صرف سماجی مسائل کی نشاندہی اور اس کے حل تک محدود رہتا ہے۔
ماضی میں اخبارات میں لکھاریوں کی تحاریر کو کالم کا نام دیا گیا اور جب ٹیکنالوجی نے ترقی تو آن لائن میڈیا (نیوز ویب سائٹ، بلاگ ویب سائٹ، آن لائن نیوز) میں لکھنے والوں کو الیکٹرانک زبان می ‘بلاگ’ کا نام دے دیا گیا جس کیلئے بلاگر کی استطلاع استعمال کی جانے لگی۔ اب کسی بلاگر کو پیشہ ور صحافی ہر گز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بلاگ لکھنے والے اب مختلف فیلڈ میں بلاگ لکھ رہے ہیں، جیسے فیشن، ٹیکنالوجی، فوڈ، جماعتی سیاست یا دیگر شامل ہے۔ پہلے پہل بلاگ لکھنے کا رحجان دیکھنے میں آیا اب یوٹیوب چینل اور فیس بک پر وڈیو آپشن کے بعد یہ بھی وی لاگنگ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ وی لاگر اب مختلف چیزوں پر وڈیو بنا رہے ہیں اس میں بھی فیشن، فوڈ، ٹیکنالوجی، سیاست، کرنٹ آفئیر، فنی پروگرام اور پرانک جیسے وی لاگ شامل ہیں۔ اب جس طرح بلاگر کو پیشہ ور صحافی نہیں کہا جاسکتا اسی طرح ایک وی لاگر کو بھی پیشہ ور اینکرمین نہیں کہا جاسکتا جبکہ موبائل عام ہونے سے شہری صحافت/ سیٹزن جرنلزم سماجی مسائل کی نشاندہی تک محدود ہے۔
موبائل فون کے عام ہونے سے شہری صحافت عام ہوئی ہے اس لئے اب کسی سیاسی ورکر کو جو بلاگ لکھتا ہے ایک ٹویٹر آکائونٹ کے ویری فائیڈ ہونے کی وجہ سے اس کو زبردستی صحافی بنانا یا بتانا پیشہ ور صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہوگی جو کئی سال تک فیلڈ رپورٹنگ میں ‘شو لیدر رپورٹنگ’ کرنے کے بعد صحافی کہلانے کے قابل ہوتے ہیں۔
لکھنا کسی کی میراث نہیں ہے لیکن جس طرح مختلف پروفیشنل فیلڈ میں تعلیمی سند کی ضرورت ہے اسی طرح موجودہ وقت میں پیشہ ورانہ صحافت کیلئے ابلاغی تعلیم کی سند کی ضرورت ہے۔ میڈیا میں اب جس طرح نام اور پیسہ کمانے کیلئے اپنی فیلڈ سے ہٹ کر ڈاکٹر اور دیگر گُھس پیٹھیے بن چکے ہیں وہ صحافت کی تعریف کرنے سے نابلد ہیں بلکہ صرف کرنٹ افئیرز کے پروگرام میں اینکرنگ کرنے کی حد تک رہ گئے ہیں۔