کراچی (رپورٹ: مقبول خان) مرزا غالب کی 156ویں برسی کے سلسلے میں غالب لائبریری میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا ہے کہ دیوان غالب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مشاہدہ بحر عمیق کی طرح ہے، غالب کو جو سمجھ گیا، وہ سمجھ گیا، غالب کے اشعار کی مکمل تشریح ممکن نہیں، غالب نے کثافت اور لطافت کو یکجا کر کے نیا آہنگ اور نیا رنگ دیا ہے۔
تقریب کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی، جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کی ایچ او ڈی ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ غالب انتہائی مشکل شاعر ہیں، انہیں ہر دور میں سمجھنے کی کوشش کی گئی اور ہر دور میں غالب کا نیا رنگ سامنے آیا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے خصوصی لیکچر میں مزید کہا کہ غالب دل و دماغ پر چھا جانے والا شاعر ہے۔ ان کے بیشتر اشعار انتہائی مشکل ہوتے ہیں، سمجھنا آسان نہیں۔ ان کے یہاں سہل ممتنع بھی ملتا ہے۔ نازک خیالی بھی پائی جاتی ہے، دہلی والوں کی زبان بھی ملتی ہے۔ غالب نے اپنی فارسی شاعری میں بہت محنت کی ہے، اور فارسی کی دشوار گذار زمینوں میں ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ غالب کے فارسی کلام میں قادرلکلامی کی انتہا بھی ملتی ہے۔ لیکن شہرت اردو شاعری سے ملی۔ غالب کی نثر بھی جداگانہ ہے،فطری اسلوب میں نثر لکھی ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب نے اردو نثر فطری اسلوب میں لکھی ہے، اور باکمال لکھی ہے، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عقیل دانش نے کہا کہ غالب ہر دور کے بڑے شاعر ہیں، دہلی لکھنواور حیدرآباد دکن کے بعد کراچی بہت بڑا ادبی دبستان ہے۔
پروفیسر سحر انصاری نے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر عقیل دانش کی علمی و ادبی خدمات کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھے شاعر اور مترجم ہیں۔ انہوں نے قصیدہ بردہ شریف کا آزاد نظم میں کمال کا ترجمہ کیا ہے، سحر انصاری نے کہا کہ خورشید رضوی اپنے لیکچر میں غالب کی شاعری کے متعدد نئے گوشے اور اشعار میں مغل ثقافت کے کئی پہلو سامنے لائے ہیں۔ صبح محسن نے اظہار تشکر کرتے ہوئے اختتامی کلمات ادا کئے۔ تقریب میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، زاہد جوہری، پروفیسر صفدر علی انشاءو دیگر نے بھی شرکت کی۔