خصوصی رپورٹ: مقبول خان
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے چند ماہ قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ جن افراد کی ماہانہ تنخواہ 35 سے 40 ہزار کے درمیان ہے، ان کے لئے مفت ہیلتھ کارڈ کا اجراء کیا جائے گا۔ اخبارات میں اس حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں وضاحت بھی کی گئی تھی کہ اس ہیلتھ کارڈ کے اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے کئے جائیں گے، اس ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ پانچ لاکھ تک کی ہیلتھ انشورنس مفت ہوگی، ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ کم آمدنی والے افراد شہر کے معیاری اسپتالوں میں اپنا اور اپنے اہل و عیال کا علاج کراسکیں گے۔ موجودہ دور میں جب مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے، کم آمدنی والے افراد کے لئے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نرخوں پر اشیاء خورد نوش کی خریداری بھی انتہائی مشکل ہے، بیمار ہوجانے کی صورت میں اپنا یا اپنے اہل خانہ کا علاج کرانا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے، کیونکہ کم آمدنی والا شخص پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے، کیونکہ وہاں مسیحائی کے نام پر بے رحمانہ انداز میں لوٹ مار کی جاتی ہے، جبکہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بھی مریضوں کے لئے تسلی بخش نہیں ہے، اگر ہم کراچی سمیت سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں کی کار کردگی اور وہاں علاج معالجہ کی سہولتوں کا جائزہ لیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کراچی سمیت صوبے کے سرکاری اسپتال مریضوں کو علاج و معالجہ کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ صوبے بھر میں شائد ہی کوئی ایسا سرکاری اسپتال ہو جہاں غریبوں کو مکمل احترام کے ساتھ تسلی بخش علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ ہر سرکاری اسپتال میں مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی علاج کیلئے ترس رہا ہے تو رش کی وجہ سے کسی کی باری ہی نہیں آتی ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحبان اور دیگر عملہ ڈیوٹی کا مقررہ وقت ختم ہونے پر اٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ڈاکٹر صاحبان مقررہ وقت پر تشریف نہیں لاتے ہیں۔ انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ شہری عام طور پر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹر جو دوائیں مریض کے لئے تجویز کرتے ہیں، ان میں بیشتر ادویات سرکاری اسپتال کے فارمیسی ڈپارٹمنٹ میں دستیاب نہیں ہوتی ہیں، اور انہیں میڈیکل اسٹور سے خریدنا پڑتی ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کا محکمہ صحت فعال اور ٹھیک ہوتا تو آج سرکاری اسپتالوں میں ایسے حالات نہیں ہوتے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت سندھ نے سرکاری اسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے عوام کو نجی اسپتالوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ شہر کے نجی ہسپتال عوام کو مشکل حالات میں بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ عوام کو نجی اسپتالوں کی لوٹ مار سے بچانے کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے اب تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ عوام کے لئے صحت کی ناکافی سہولیات اور سرکاری اسپتالوں کی حالت زار صرف کراچی یا سندھ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پورے پاکستان میں صحت کی سہولیات نا کافی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کا شعبہ انتہائی بد ترین حالت میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور نجی اسپتال بھی، مسیحائی اور خدمت کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں۔
اسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے ‘رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز’ کی رینکنگ کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری اسپتال دنیا کے ساڑھے 5 ہزار بہتر اسپتالوں میں شامل نہیں۔ اسلام آباد کا ‘پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز’ یعنی پمز جسے پاکستان کا بہترین اسپتال مانا جاتا ہے۔ دنیا کے بہترین اسپتالوں میں پمز کی رینکنگ 5 ہزار 911 نمبر پر رہی ہے۔ ملک کی آبادی 23 کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، اسپتالوں کی موجودہ تعداد انتہائی ناکافی ہے، چھوٹے شہروں اور قصبوں کو تو جانے دیجیے، کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں سرکاری سپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 90 فیصد کے لگ بھگ ہیں) انہی سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ سرکاری سطح پر ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ رویئے کے باعث صحت عامہ اور سرکاری ا سپتالوں کی صورتحال ابتر نظر آتی ہے، دوسری طرف ماحولیاتی آلودگی ،صفائی کی ناقص صورتحال، اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ سمیت دیگر عوامل کے باعث ملک میں مختلف بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو، اور دیگر امراض کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں گورنر سندھ کی جانب سے ہیلتھ کارڈ کے اجراء کا اعلان خوش آئند ہے، اور اس سے کم آمدنی والے افراد کو شہر کے معیاری اسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں مل سکتی ہیں۔ لیکن صوبہ کی پوری آبادی کے لئے ہیلتھ کارڈ کا اجراء ممکن نظر نہیں آتا ہے، اس سلسلے میں حکومت سندھ کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جن کے پاس محکمہ خزانہ کا قلمدان بھی ہے، انہوں نے نئے مالی سال کے بجٹ میں محکمہ صحت کی ترقیاتی اسکیموں کے لئے 19 ارب 73 کروڑ 90 لاکھ روپے مختص کئے ہیں، اگر محکمہ صحت کے ترقیاتی منصوبوں کےلئے مختص یہ رقم شفاف انداز میں سرکاری اسپتالوں کی ترقی اور انہیں اپ گریڈ کرنے اور عوام کے لئے علاج و معالجہ کی بہتر سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کی جائے تو سرکاری اسپتالوں کی مجموعی صورتحال تسلی بخش ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پییچوہو سے استدعا ہے کہ وہ محکمہ صحت کے افسران کو سختی سے ہدایت کریں کہ وہ سرکاری اسپتالوں میں ہر شعبے کی کارکر کردگی کو مانیٹر کریں، اور جہاں خامیاں اور کوتاہیاں نظر آئیں، وہاں محکمانہ کارروائی کی جائے، اس سے سرکاری اسپتالوں کی کار کردگی بہتر ہوگی، اور عوام کو علاج معالجہ کی بہتر سہولیات بھی مل سکیں گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سندھ میں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی بہتر کارکردگی کی ایک مثال ہوگی، جس کے آنے والے عام انتخابات میں بہتر اور مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔