تحریر: نصرت امین
یوم تکبیر انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ منا لیا گیا، قوم کو ایک بار پھر بہت بہت مبارک ہو، صرف ایک اضافے کے ساتھ!
پاکستان کا ایٹمی طاقت بن جانا، یقیناً کئی پہلووں سے ایک قابل فخر اور مثبت پیش رفت ہوسکتی تھی، لیکن عجب یہ کہ غیر ملکی حملہ آووروں کی جانب سے ہمارے ملک کے خلاف، مندرجہ ذیل تمام جارحانہ واقعات 28 مئی 1998 کے بعد رونما ہوئے۔
نمبر ایک، ایک غیر ملکی طاقت (امریکہ) نے پاکستانی علاقوں پر پے در پے ڈرون حملے کر کرکے، بے شمار پاکستانیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ پہلے تک جاری رہا۔ زیادہ افسوس یہ کہ پاکستانی قوم کو اندرونی سطح پر آج بھی کوئی یہ ضمانت دینے والا نہیں، کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
نمبر دو، یہی غیر ملکی طاقت ایک بار پھر پاکستان پر حملہ آوور ہوئی، اور پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں گُھس کراسامہ بن لادن کو اٹھا کر لے گئی۔
نمبر تین، ایک پڑوسی ملک (ہندوستان) نے ہماری شہ رگ جموں و کشمیر بہ یک جنبش قلم چھین لیا، اور آج تک اپنے اس عمل پر رعونت کی حد تک قائم ہے۔ پاکستان کا ردعمل آج تک صرف سیاسی و سفارتی سطح تک محدود ہے۔
نمبر چار، ایک انتہائی پسماندہ پڑوسی ملک (افغانستان) ہمارے ہاں دراندازی کرتا رہتا ہے اور ہم رد عمل کے طور پر ایک بیان داغ دینے کے سوا اب تک کچھ نہیں کرسکے ہیں۔
نمبر پانچ، تیسرے پڑوسی ملک (ایران) کی سمت سے حال ہی میں ہماری سرحدوں کے اندر دہشت گردی کی گئی، اور آج اس معاملے کے حوالے سے مکمل طور پر خاموشی ہے۔
عمر شریف نے ایک بار انٹرویو کے دوران جنرل پرویز مشرف سے پوچھ ہی لیا تھا، “ سر، کیا ہم نے یہ (ایٹم) بم شب برآت میں پھاڑنے کے لئے بنایا تھا؟”
اجتماعی آگہی کے فلسفے کے تحت عمر شریف کا یہ سوال اس قوم پر ایک احسان تھا۔ اگر قوم اس تاریخی سوال سے حاصل آگہی سے ایک فیصد بھی فائدہ اُٹھالے، تو غیر ملکی طاقتیں اور یہ پڑوسی ممالک ہمارے ساتھ ایسے جارحانہ کھلواڑ کرنا مکمل طور پر بند کردیں گے۔
سچ یہ ہے کہ یہ سوال تو کوئی صحافی، کوئی سیاست دان اور کوئی عسکری تجزیہ کار بھی آج تک نہیں اُٹھا پایا ہے۔ یہ ہمت عمر شریف ہی میں ہوسکتی تھی، اور وہ یہ ہمت ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ ہی لے کر چلے گئے۔
اے خدا، پاکستان کی حفاظت فرما، آمین