کراچی (رپورٹ: ایم جے کے) سندھ میں منظم منصوبہ بندی اور ناانصافی کے تحت ہندو سیٹھوں کی اجارہ داری قائم ہونے کے بعد ضلعی کمیٹیوں سے نچلی ہندو ذاتیں خارج کردی گئی۔
سکھر، گھوٹکی اور خیرپور کی میگھواڑ پنچایتوں کے منتخب نمائندوں، مکھی دادن ارشی، مکھی دریانو مل، ضلعی کونسلر امیت کمار، اور مکھی ہیرا نند نے ہندو برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ضلعی کمیٹیوں کے نوٹیفکیشن پر شدید اعتراضات کا اظہار کیا ہے۔ سکھر، خیرپور، اور گھوٹکی میں ہندو برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے بنائی گئی ضلعی کمیٹیوں کی تشکیل بنیادی طور پر غلط اور جانبداری پر مبنی ہے، کیونکہ سکھر کے ہندو رہنما سیٹھ مکھی ایشور لال کے ناجائز اثر و رسوخ کی وجہ سے اس عمل کو شفاف بنانے کے بجائے مخصوص گروہ کی اجارہ داری کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
نتیجتاً اکثریتی نچلی ہندو ذاتوں، جن میں میگھواڑ، بھیل، باگڑی، والمیکی، اوڈھ اور دیگر کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے، یہ ناانصافی انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ سندھ کی ہندو آبادی کی ایک بڑی تعداد انہی برادریوں پر مشتمل ہے، جن کی آواز کو دبایا جا رہا ہے اور انہیں یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کی واضع ہدایات کے باوجود کہ ضلعی سطح پر جامع اور نمائندہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، ایشور لال نے اس عمل کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کو فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا گیا ہے، میگھواڑ پنچایتوں کے منتخب نمائندوں کو نظر انداز کرنے اور اہم برادری رہنماؤں کو شامل نہ کرنے سے ناانصافی مزید گہری ہو گئی ہے، اگرچہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائم کمیٹیاں ایس ایس پی دفاتر میں موجود ہیں لیکن ان کا کردار بے اثر ہو چکا ہے کیونکہ وہ صرف ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کی خدمت کر رہی ہیں بجائے اس کے کہ وہ پوری ہندو برادری کے حقیقی مسائل کو اجاگر کریں۔
حکومت سندھ کی مسلسل اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی حمایت جبکہ شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی اکثریت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، ایک گہری جڑوں والے تعصب کی عکاسی کرتی ہے جو سماجی ناانصافی کو مزید بڑھا رہا ہے، اس کے نتیجے میں غیر قانونی زمینوں پر قبضے، زبردستی مذہب کی تبدیلی، اور شادی و وراثت جیسے قانونی مسائل نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے حل نہیں ہو پا رہے ہیں، صرف علامتی نمائندگی اور سوشل میڈیا کی سرگرمیاں حقیقی شمولیت کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے شیڈول کاسٹ ہندوؤں کو ضلعی کمیٹیوں میں ان کا جائز حق دے اور اس دیرینہ ناانصافی کو ختم کرے، صرف مساوی نمائندگی کے ذریعے ہی ہندو برادری اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتی ہے اور معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکتی ہے۔