کراچی (مدثر غفور) کراچی میں کلیدی اور اہم منافع بخش عہدوں پر سسٹم کے منتخب کردہ جونیئر و متنازع اور غیر قانونی بھرتی افراد کی تعیناتیوں کا سلسلہ ختم نہ ہو سکا، اس کی تازہ مثال کراچی کے ایک منافع بخش ادارے اور سونے کی کان سمجھے جانے والے ادارے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں عرصے سے مختلف منافع بخش عہدوں پر تعینات محمد عرفان بیگ کی انوکھی داستان سامنے آگئی۔ مذکورہ ملازم کے خلاف گزشتہ برس سابق سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے نہایت سخت نوٹیفکیشن جاری کیا، اس کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی تحریری فیصلے جاری کیے لیکن کوئی اس کردار کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
دی پاکستان اُردو کو ملنے والی دستاویزات نہایت چشم کشا ہیں۔ گزشتہ برس 12 نومبر کو سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نجم احمد شاہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن برائے محمد عرفان بیگ کے مندرجات کچھ یوں ہیں کہ: وہ 29 نومبر 1997 کو گریڈ 5 میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ساؤتھ میں بغیر کسی اشتہار کے شائع ہونے کے بعد، بغیر انٹرویو اور کسی سلیکشن کمیٹی کی سفارش کے بغیر بھرتی کر لیا گیا۔ پانچ برس بعد 2022 میں اس کو سٹینوگرافر بنا کر گریڈ 12 میں ترقی دے دی گئی۔ دو برس بعد 2004 میں اس کو مزید ترقی دے کر اسسٹنٹ لیگل افیسر گریڈ 17 ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں تعینات کیا گیا مگر اس نے از خُود گریڈ 18 کی پوسٹ بطور لیگل آفیسر کا چارج سنبھال لیا اور کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
مذکورہ افسر کے حوالے سے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے پے رول ڈیپارٹمنٹ سے اس کی پہلی تنخواہ کا بل اور دیگر منسلک معلومات کے لیے خط تحریر کیا گیا جس پر ڈائریکٹر پے رول نے 23 جون 2022 کو جواب تحریر کیا کہ محمد عرفان نے بطور میل ویکسینیٹر 1998 سے لے کر 2004 تک کے ایم سی سے اپنی تنخواہ وصول کی۔ مذکورہ لیٹر موصول ہونے کے بعد اسی دن سینیئر ڈائریکٹر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو مراسلہ ظاہر کیا گیا کہ مذکورہ افسر کہ 2002 اور 2004 میں ترقی کے احکامات کی تصدیق کریں، جس پر جواب موصول ہوا کہ اس حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے نہ ہی موجود دستاویزات اس کی پروموشن کی تصدیق کرتی ہیں۔
محمد عرفان بیگ کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹر و میونسپل کمشنر کو مراسلہ تحریر کیا گیا کہ اس کی 1997 میں ڈی ایم سی ساؤتھ میں بھرتی کی تصدیق کی جائے جس پر چیف میڈیکل آفیسر ڈی ایم سی ساؤتھ نے 29 جون 2022 کو جوابی مراسلہ تحریر کیا کہ مذکورہ نام کا شخص نہ تو کبھی ڈی ایم سی ساؤتھ میں بھرتی ہوا اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی سیلری لی۔ ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 18 جولائی 2022 کو لیٹر تحریر کیا کہ محمد عرفان ولد محمد اشفاق نے جعلی کاغذات بنا کر اور اس کی بنیاد پر گریڈ 12 کے ٹیکنیکل کیڈر میں بطور اسٹینوگرافر اس وقت ڈی ایم سی ساؤتھ اور کراچی میونسپل کارپوریشن ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک نیا ادارہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کا قیام عمل میں آرہا تھا، اس نے اسی جعلی کاغذات کی بنیاد پر جو ترقی حاصل کی اس کے بعد مزید جعلی کاغذات کی بنیاد پر اسسٹنٹ لیگل آفیسر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ضم ہونے میں کامیاب ہوگیا، اپنے مشکوک دفتری بیک گراؤنڈ اور جعلی کاغذات کی بنیاد پر اس نے ایم ڈی اے میں گریڈ 18 کی پوسٹ بھی حاصل کر لی۔
سیکرٹری مراسلے میں مزید تحریر کیا ہے کہ معزز سپریم کورٹ نے مختلف آئینی درخواستوں میں تحریر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ کیڈر کی تبدیلی، آؤٹ آف ٹرن پروموشن و اپ گریڈیشن کو منسوخ کیا جاتا ہے۔ لہذا سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں محمد عرفان بیگ کے ترقیوں کے حوالے سے تمام احکامات منسوخ کیے جاتے ہیں اور مذکورہ افسر کو اوریجنل پوسٹ گریڈ 5 جو وہ ایڈہاک بیسز پر بھرتی ہوا تھا اس کی خدمات میونسپل کمشنر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ساؤتھ کراچی کو واپس تقویض کی جاتی ہیں۔ محمد عرفان بیگ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایڈمنسٹر ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ساؤتھ کراچی کو رپورٹ کریں اور وہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
اس سنگین مراسلے کے بعد بھی محمد عرفان بیگ کو ایم ڈی اے میں دو اہم عہدے دے دیے گئے جن میں گریڈ 20 کے ڈائریکٹر اسٹیٹ اور ڈائریکٹر لاء کے عہدے شامل تھے۔ اسی دوران اس کو ادارے کا سیکرٹری بھی تعینات کیا گیا اور انہی تعیناتی کے دوران اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ شرقی میں اس کے اور دیگر دو ملازمین عبدالناصر خان اور محمد ارشد خان کے خلاف جعلی کاغذات پر پروموشن لینے، چیٹنگ اورنج میگا کرپشن فراڈ کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا جس پر موصوف عرفان بیگ نے بطور سیکرٹری ایم ڈی اے ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو یہ لیٹر تحریر کیا کہ مذکورہ تحقیقات تفتیش کرنے والے افسر سے لے کر انسپیکٹر زاہد حسین میرانی کو دے دی جائے جبکہ اس تحقیقات میں وہ خود ملزم نامزد تھا۔ رواں برس مختلف اوقات میں ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے نے عرفان بیگ کو سیکرٹری اور ڈائریکٹر اسٹیٹ کہ عہدوں سے تو ہٹا دیا لیکن پھر بھی دو اہم عہدوں پر تعینات کر دیا جو ڈائریکٹر لینڈ اور ڈائریکٹر لیگل ہیں۔
دی پاکستان اُردو نے تینوں متعلقہ افسران کا موقف لیا جس میں محمد عرفان بیگ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف نہ کبھی ماضی میں نہ ہی حال میں کوئی انکوائریاں ہوئیں، نہ ہی کبھی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے ان کے خلاف کوئی مراسلہ لکھا اور نہ ہی کوئی عدالتی حکم ان کے خلاف آیا۔ یہ تمام سنی سنائی باتیں ہیں کسی کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ اسی حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نعیم الغنی سہتو کا کہنا تھا کہ فی الحال ان کے ادارے میں محمد عرفان بیگ کے حوالے سے کوئی انکوائری نہیں ہو رہی، ان کے علم میں نہیں کہ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے ان کے خلاف کوئی رپورٹ تحریر کی تھی، مزید تفصیلات بیان نہیں کر سکتا اور جو بھی حقائق ہیں وہ میں عدالت میں جاری کاروائی میں بیان کروں گا۔ محمد عرفان بیگ کے خلاف جامع رپورٹ تحریر کرنے والے سابق سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نجم احمد شاہ کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ انہوں نے وہ رپورٹ تحریر کی تھی، کیونکہ ان کا تبادلہ ہو گیا ہے لہذا ان کے علم میں نہیں کہ مذکور رپورٹ پر مزید کیا کاروائی ہوئی۔