اجرک نمبر پلیٹ اور شاہی اخراجات

0
12

تحریر: محمد نعیم قریشی

کامیاب حکومت کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے رعایا اس سے خوش ہوگی، عوام اس قدر باشعور ہوچکے ہیں کہ وہ جمہوریت کے تقاضوں کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں۔ وہ اعلی اور عوام دوست قیادتوں کو منتخب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر نتیجہ جب ووٹ دینے کے بعد بھی اس کے برعکس آئے تو پھر بیچارے عوام کس کو اپنا دکھ سناسکتے ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے ووٹوں سے نہیں بلکہ طاقتور لوگوں کی منشا سے حکومتیں بنتی بھی ہیں اور گرائی بھی جاتی ہے۔

ان دنوں کراچی کے لوگوں میں اجرک ڈیزائن والی نئی نمبر پلیٹ شہریوں کیلیے درد سر بنی ہوئی ہیں، یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں پانی بجلی گیس اور مہنگائی کی کیا کم تکلیفیں تھی جو اس نئی مصیبت میں اور پھنسایا جارہا ہے۔ اس وقت سندھ حکومت کی جانب سے گاڑیوں کے لیے اجرک ڈیزائن والی نئی نمبر پلیٹس کو لازمی قرار دینے کے فیصلے نے شہریوں کیے سامنے مشکلات کے انبارلگادیے ،جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں گھر سے نکلتے ہی عوام کو دھرلیا جاتا ہے اور بھاری بھر کم جرمانے لگانے کے ساتھ لاتوں اور مکوں کا استعمال بھی ہورہا ہے۔

پنجاب میں یہ معاہدہ ہیلمٹ نہ ہونے والوں کے ساتھ ہے اور سندھ میں عوام اجرک پلیٹوں کی سختیوں سے تنگ آکر اپنی موٹر سائیکلوں کو ہی آگ لگارہے ہیں، ایسا لگتا ہے چاروں طرف عوام کے لیے موت کا ایک شکنجہ کس دیاگیا ہے، عوام کو ٹریفک پولیس اور عام پولیس اسی وقت ہی بخشتی ہے جب کسی وزیر یا مشیر کو پروٹوکول دینا ہو ورنہ سارا فوکس غریب عوام کی غلطیاں نکالنے میں ہی لگ جاتا ہے۔اس پر کراچی والوں کی قسمت یہ ہے کہ ایک طرف تو محکمہ ایکسائز کی طرف سے نمبر پلیٹس کی بروقت فراہمی کا کوئی مثر نظام بھی موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب پرانی نمبر پلیٹس استعمال کرنے والے شہریوں کو بھاری چالان اور گاڑی ضبطی جیسی سزاں کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ مطلب کراچی کی سڑکیں خوف کا منظر پیش کرنے لگی ہیں ۔یہ نہیں کہ عوام اجرک والی نمبر پلیٹوں کو لگوا نہیں رہی، مشکل یہ ہے کہ آپ ایکسائز کے دفتر جاکر دیکھ لیں۔ محکمہ ایکسائز کے دفاتر پر آئے روز آپ کو سیکڑوں افراد قطاروں میں سخت گرمی میں کھڑے نظر آئیں گے لیکن انہیں ہفتوں گزرنے کے باوجود نمبر پلیٹس جاری نہیں کی جاتیں اور سڑکوں پر سے اجرک نمبر پلیٹ نہ ہونے پر گزرنے نہیں دیا جاتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سندھ سرکار ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو بنانے کی بجائے الٹا عوام کو ہی کیوں بلی کا بکرا بنارہی ہے، جو موئنجو داڑوں کی سڑکوں پر دبئی والے چالان لگارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ واقعی ثقافت کا معاملہ ہے یا پھر مال جمع کرنے کا کوئی نیا فارمولہ۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ کس سفاکی اور درندگی سے ڈالا جارہا ہے یہ تو میں اوپر بیان کرچکا ہوں، آخر یہ ظلم کیوں ہورہا ہے اب بات یہ آپ کے سامنے رکھنی ہے۔ ایک زرائع سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ کچھ زمہ دارلوگوں نے مل بیٹھ کر یہ پلان بنایا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ اربوں روپے کمالیے جائیں۔ اگر ہم اربوں روپے کی وصولی کی بات کریں تو ایک زرائع کے مطابق کراچی میں 42 لاکھ موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہیں، اس کو 1850 سے ضرب دیں 7 ارب 77 کڑور بن جائیں گے۔ کاروں کی تعداد بارہ لاکھ ہے، گاڑی کی نمبر پلیٹ کی مد میں 24 سو 50 روپے لیے جارہے ہیں،باب بارہ لاکھ کو 24 سو 50 روپے سے ضرب دیں تو جواب آتا ہے 2 ارب 94 کروڑ اسی طرح ایک انگلش اخبار کی رپورٹ کے مطابق کار اور موٹرسائیکل کی تعداد گزشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ سے لی گئی ہیں۔ اس میں اب تک کئی لاکھ کا اضافہ ہوچکا ہے، مطلب جوفیگرز میں نے بتائیں ہیں، رقم اب اس سے زیادہ ہی بنے گی لیکن ہم اگر ہم پرانا حساب رکھ کر ہی دونوں میں جمع ہونے والی رقم کو اکھٹا کرلیں تو 10 ارب 71 کروڑ ابھی اس میں منی بسیں، بسیں، منی ٹرک، وین پک اپ، ٹیکسی، رکشے، لفٹر، ٹریکٹر، آئل ٹینکر اور دیگر چار پہیوں والی گاڑیوں کے اعدادو شمار تو شامل ہی نہیں کیے پھر تو معاملہ کھربوں پر چلا جائے گا.

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ بلاول بھٹو صاحب کو یہ سب کیوں دکھائی نہیں دیتا کیا یہ سب انسانی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا۔ ابھی تو ہم کراچی کی ہی بات کررہے ہیں پورا سندھ تو گننا باقی ہے۔اجرک پلیٹوں کا رونا کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بھی یہ زیادتی عوام کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں۔ عوام کو لوٹنا اور پھر عوام کے پیسے کو بے دریغ خرچ کرنے میں ہمارے حکمرانوں کا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی اس تحریر میں ہمارے شکوے شکایتی کوئی نئی بات ہوسکتی ہے، اس سے پہلے قائم ہونے والی منتخب حکومتیں عوام کو لوٹنے اور قومی وسائل کو سنگدلی سے خرچ کرنے میں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ سول بیورو کریسی، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاوس، وزیراعلی و گورنر ہاوسز کا سب خرچہ قرض میں لی گئی رقم سے پورا ہوتا ہے اور جو خرچے کم رہ جائیں تو پھر عوام کس مرض کی دوا ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں