تحریر: نوید کمال
غلام قادر تھیبو سندھ پولیس کے سینئیر افسر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں یہ پولیس سروس آف پاکستان کے تیرہویں کامنتھ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ 14 ویں، 15 ویں اور سولہیوں کامنتھ گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران گریڈ بائس میں ترقی حاصل کرچکے۔ متنازعہ سروس ریکارڈ کی وجہ سے 2016، 17 میں ہونے والے بورڈ میں سابق وزیراعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے غلام قادر تھیبو پر مبینہ کرپشن الزامات کی باز گشت پر انہیں اگلے گریڈ میں ترقی دینے سے انکار کردیا۔ شنید ہے کہ اس دور میں فواد حسن فواد نے تمام پرموشنز میرٹ پر کرنے کا دعوی کیا غلام قادر تھیبو دو بار ایڈیشنل آئی کراچی کے عہدے پر رہے۔
یہ 2014 میں آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی سربراہی میں ایڈیشنل آئی جی مقرر ہوئے تحقیقاتی فنڈز، بکتر بند گاڑیوں کی خریداری، ویلفیئر فنڈز اور غیرشفاف بھرتیوں کے ذریعے اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں غلام حیدر جمالی، غلام قادر تھیبو، خادم حسین بھٹی، فداحسین شاہ اور تنویر طاہر سمیت کئی افسران پر بد عنوانی کے الزامات عائد ہوئے یہ عدالتی کارروائی کا حصہ بنے۔ غلام قادر تھیبو کے دور تعیناتی میں محکمہ پولیس کے لوگ، زمینوں پر قبضوں، نزرانے دیکر ایس ایچ او لگنے کے افسانے سناتے رہے ہیں۔
18جولائی کو غلام قادر تھیبو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائڑڈ ہوگئے۔ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے اپنی ریٹائرمنٹ سے محض ایک دن قبل ایس ایس پی حیدراباد عدیل چانڈیو کے نام ایک خط لکھا جس میں الزامات عائد کیے گئے کہ حیدرآباد کے تمام ایس ایچ اوز آئس، چرس، ہیروئین اور سٹہ کے کاروبار کی سرپرستی اور معاونت کرتے ہیں۔ انکا الزام ہے ایس ایچ اوز ہفتہ وار اور ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں انہوں نے گلا کیا کہ ایس ایس پی کو ان افسران کے خلاف کارروائی کے لیے خط لکھا لیکن انہوں نے کارروائی نہیں کی۔ غلام قادر تھیبو کے الزامات سنگین ہیں ان الزامات کی چھان بین اور حقائق کا پتہ لگانا محکمے کا کام ہے۔
سندھ پولیس میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا خط ہے جو ایک اعلی افسر نے ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل لکھا اگر تھیبو کے الزامات درست ہیں تو ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو 18 مارچ اپنی تعیناتی کے روز سے 17 جولائی تک کیوں خاموش رہے؟۔ انہوں نے خط پہلے کیوں نہیں لکھا اور ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل ان کا خط لکھنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے اس میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایس ایس پی حیدرآباد عدیل چانڈیو نے 16 پولیس اہلکاروں کو بھتہ کلیکشن، جرائم کی سرپرستی، جرائم میں ملوث ہونے پر ملازمت سے ریٹائر کیا۔ سابق ایڈیشنل آئی جی نے انہیں براہ راست کیسے بحال کردیا؟ کیا ان لوگوں نے اپنی اپیل ڈی آئی جی کو کیں؟ کیا ڈی آئی جی نے اپیلیں مسترد کیں؟ ایڈیشنل آئی جی کیسے ان لوگوں کو بحال کرسکتے تھے؟ اگر افسران جرائم پیشہ پولیس اہلکاروں کی سرپرستی کررہے ہیں تو بدنام زمانہ سولہ اہلکاروں کو ریٹائر کیوں کیا گیا؟ ان سولہ بدعنوان پولیس اہلکاروں میں سب سے اہم کارروائی لہونو خان نامی اہلکار کے خلاف ہے۔ جس کی بھرتی پولیس کے ریکورٹمنٹ سسٹم شفافیت کو مشکوک بناتی ہے لہونو خان سرے سے پولیس کا ملازم نہیں ہے لیکن حیدرآباد رینج میں تعینات ہے تنخواہ بھی لیتا ہے۔ ایس ایس پی حیدر آباد نے اس کی بھرتی کو غیر قانونی قرار دیکر نوکری سے برطرف کیا اور اہلکار نے سابق ایڈیشنل آئی جی ولی اللہ دل کو اپیل کی جنہوں نے اس کی اپیل کو ریجیکٹ کردیا۔ اہلکار نے اچھے وقت کا انتظا کیا اور اس کا اچھا وقت غلام قادر کی تعیناتی کی صورت آگیا۔ اپیل کی اور 8 جولائی کو بحال ہوگیا شنید ہے اہلکار کا بحالی پر تین لاکھ روپے خرچہ آیا۔ رقم کس جیب میں گئی؟ یہ سوال اپنی جگہ ہے، خط دو شخصیات کے درمیان تنازع ، اختلاف کی داستاں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ عدیل چانڈیو ملیر جیسے ضلع میں تعینات رہے ہیں کیا وہاں ان کی خلاف کوئی سنگین الزام لگایا انکوائری کھلی؟ یہ ایک سال ایس ایس پی سٹی بھی رہے وہاں بھی حیدر آباد سے معمولی مماثلت رکھتا کوئی واقعہ گزرا؟ تھیبو کے الزامات سنگین نوعیت کے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدیل چانڈیو خود چاہیں گے ان کی شفاف تحقیقات ہوں۔ سوالات اور بھی ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ اپنے سے تین بیج جونئیر آئی جی کے تھلے تھیبو نے، ایڈیشنل آئی جی حیدر آباد کا عہدہ حاصل کیا اور وہ محکمے کی کونسی خدمت کرنا چاہتے تھے؟ عام طور پر محکمہ جاتی غیرت کے حامل افسران ایسا نہیں کرتے جس کی ایک مثال سردار عبدالمجید دستی ہیں۔ جنہوں نے جونئیر افسر کے ماتحت کام کرنے کے بجائے فالحال محکمے سے کنارہ کشی کو ترجیع دی۔ الزامات کی تحقیقات ہوں اچھی بات ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ان الزامات کے بعد سندھ پولیس کا ورکنگ انوائرمنٹ کہاں ہے۔ آئی جی سندھ آئندہ اس طرح کے تنازعات کے حل کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب کریں گے؟۔