پشاور: صحافیوں زندگی کیلئے پاکستان خطرناک ترین ملک قرار پایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیرستان سمیت مختلف ایجنسیوں کو خیبر پختونخواہ میں ظم کرکے ایف سی آر کو برائے نام ختم کیا گیا تھا تاہم جنوبی وزیرستان میں انگریز دور کے قبائلی جرگہ سسٹم کو ایف سی آر کے تحت تاحال قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔
جنوبی وزیرستان میں جرگے کے فیصلوں کیخلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے پر نوجوان صحافی معراج خالد کے گھر کے اردگرد ایف سی، پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں صحافی معراج خالد وزیر کا گھر مسمار کرنے کے اعلانات کیے جاتے رہے اور پولیس صحافی کے گھر میں موجود رہی۔ زلی خیل قوم بازار میں اعلانات کرتی رہی کہ دو ہزارا چالویشتی اعظم ورسک پہنچ جائے اور دس بجے تک جرمانہ دو ورنہ ہم گھر کو مسمار کر دینگے تاہم قبائلی جرگہ نے صحافی معراج خالد کو خاندان سمیت علاقہ بدر کردیا۔
معراج خالد وزیر کا خاندان ایجنسیوں کی مدد سے چلنے والی نوکسیز (زلی خیل) لشکر کی دھمکیوں کے بعد علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ علاقے کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان تمام طاقتور لوگوں کی باقاعدہ پشت پناہی کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے سول انتظامیہ سمیت پولیس ان کے معاملات کو نہیں روک سکتیں۔ جبکہ دوسری طرف ایسے معاملات جتنے اچھالے جاتے ہیں ریاستی سازشیوں کو اس کا فائدہ ہوتا ہے اور وزیرستان کے لوگوں کی اچھی خاصی بدنامی کی جاتی ہے۔ کسی نئے کھیل کے لیے گراؤنڈ ہموار کیا جاتا ہے جیسے کہ پاکستانی اداروں کو فاٹا میں سابقہ نظام میں بہت بڑے فائدے ہیں۔ وہ ملکان جو انگریز کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ کو ورثے میں ملے تھے، پولیٹیکل ایجنٹ کے خاتمے کے بعد سرکاری طاقت ور ادارہ اور حساس اداروں کے اثاثے بن گئے ہیں جس کو وزیرستان میں ایسے استعمال کیا جارہا ہے جیسے پنڈی اسلام آباد میں ایک مذہبی تنظم کو دھرنوں کیلئے استعمال کی جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کے قبائل علاقوں میں آئین و قانون کے محافظ کہاں جو ایک شہری کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔