کراچی (تحقیقاتی رپورٹ) ہفتہ قبل زیر سمندر پراسرار حالت میں تباہ ہونے والی آبدوز نہیں بلکہ ایک کیپسول کہی جاتی تھی اور وہ کیا اس قابل تھی کہ اسے زیر سمندر پر لے جایا جائے تو جواب ہے ‘نہیں’۔ اس کو تیار کرنے والی امریکی کمپنی اوشین گیٹ کے مالک اسٹاکٹن رش کا نام بھی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرلیا گیا ہے، جن کی تخلیقات ہی ان کی موت کا موجب بنیں جیسے ٹائی ٹینک جہاز کے مالک کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
بدقسمت کیپسول پر مالک اور چار مسافر سوار تھے اس میں سے تین برطانیہ کے شہری اور بلین ائر شخصیات اور دو امریکی شہری تھے۔ مسافر ہمیش ہارڈنگ بھی برطانوی شہری تھا۔ ماضی میں فرانس نیوی میں بطو ڈائیور کال ہندی بھی مسافروں میں شامل تھا اور کیپسول کا پائلٹ تھا۔ اس کا شمار دنیا کے ان افراد میں ہوتا تھا جو سب سے زیادہ غرقاب جہاز ٹائی ٹینک کے قریب گئے۔ چاروں مسافروں سے فیکس ڈھائی لاکھ ڈالر وصول کئے گئے۔
امریکی کمپنی اوشین گیٹ کے مالک اسٹاکٹن رش کی نیٹ ورتھ مالیت صرف 12 ملین ڈالر تھی۔ رش کی زیر سمندر ڈائیونگ کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔ اس نے امریکہ سے ایٔر اسپیس کے شعبے میں پڑھائی کی تھی۔ اس کی کمپنی اوشین گیٹ کے پاس چار کیپسول تھیں مگر کوئی سرکاری اجازت نامہ نہیں تھا۔ ٹائٹن واحد کیپسول تھی جو زیر سمندر چار ہزار میٹر گہرائی تک سفر کر سکتی تھی۔
ٹائٹن نے 2021 میں ایک اور 2022 میں بھی ایک ٹائی ٹینک کے نزدیک سفر کیے۔ 2023 میں یہ پہلا سفر تھا جب کہ 2024 میں 2 سفر شیڈول میں تھے۔ اس وقت اوشین گیٹ کی ویب سائٹ بند ہے اور حیرت انگیز طور پر کمپنی کے مالک کی ہلاکت کے باوجود مزید افراد کی بھرتی کے لیے اشتہار دیا ہے۔ ماضی میں ایک امریکی صحافی ڈیوڈ پوگیو نے ٹائٹن پر سفر کیا تھا اور بعد میں تحریر کیا تھا کہ مذکورہ کیپسول روانگی سے ہی تکنیکی خرابیوں سے جڑی ہوئی تھی اور اس کو نقصان بھی پہنچا تھا اس پر سفر کرنا نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی جواب طلب رہے گا کہ پاکستانی نژاد شہزادہ سلطان اور ان کے صاحبزادے سلیمان نے باشعور ہونے کے باوجود اوشین گیٹ اور اس کی کیپسول ٹائٹن کے متعلق نیٹ سے معلومات کیوں حاصل نہیں کیں۔ جب بھی ٹائٹن زیر سمندر جاتی تھی تو اس کے ساتھ ایک بڑی بحری کشتی سمندر کے اوپر اس جگہ کھڑی رہتی تھی جہاں ٹایٹینک کا ملبہ موجود ہے، کیونکہ کیپسول کے ڈائئو کرنے سے اوپر سطح سمندر تک آنے میں آٹھ سے دس گھنٹے اور ٹائٹینک کے نزدیک دو گھنٹے فوٹو گرافی کے لئے شامل ہوتے تھے۔
مذکورہ کیپسول کے بیس کیمپ سے ہوا بھری ڈنکییوں کے ذریعے مطلوبہ مقام تک لے جایا جاتا تھا اور پھر کیپسول زیرسمندر میں اتاری اور چلی جاتی تھی۔ کیپسول کا کنٹرول بحری کشتی میں موجود ایک آدمی ویڈیو گیم کے طرز کے پینل سے کنٹرول کرتا تھا۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شہزادہ داؤد کی زندگی کے متعلق سب سے زیادہ معلومات نائجیریا کی ایک ویب سائٹ ‘نائیجیریا بومب شیل’ پر موجود ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ملائیشین ائیر کے طیارہ حادثے کی طرح اس المناک واقعے کی گتھیاں بھی کبھی صلحج نہیں پائیں گی۔ مذکورہ علاقہ برمودا ٹرائینگل کے زمرے میں آتا ہے۔