خواب و خیال/ آغا نیاز مگسی
22 دسمبر 2020 کو جب دنیا بھر میں سال کا سب سے چھوٹا دن تھا اور سال کی سب سے بڑی رات تھی عین اسی دن کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں بلوچ قوم کی ایک شہزادی نما جوان عورت کریمہ بلوچ کی لاش برآمد ہوئی جس کی پر اسرار ہلاکت پر بلوچ قوم سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے سربراہان اور کارکنوں کی جانب سے افسوس اور تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ بلوچ قوم کی جانب سے کریمہ بلوچ کی موت پر اس وجہ سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا کہ وہ بلوچ قوم اور بلوچستان کی سرزمین کی بیٹی تھی اور دیار غیر میں غریب الوطنی کی حالت میں موت کی وادی میں چلی گئی ۔ اگر کریمہ بلوچ علیحدگی پسند نہ ہوتی اور یہی کریمہ پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے بلوچ قوم کے حقوق کے لیئے سیاسی جدوجہد کرتی جس طرح سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ و دیگر بلوچ قوم پرست رہنما اور کارکن جدوجہد کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں شاید کریمہ بلوچ کی سیاست بلوچ قوم اور بلوچستان کی سرزمین کے حق میں بہت بہتر اور سود مند ثابت ہوتی مگر افسوس کہ کریمہ بلوچ صاحبہ نے علیحدگی کی تحریک کا راستہ اختیار کیا جس سے بلوچستان کے لوگ خود کو علیحدہ رکھے ہوئے ہیں اور بلوچ قوم کے اکابرین یا عام شہری پاکستان کے آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے جائز حقوق اور سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ۔
پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اول لاپتہ ہونے پھر گرفتاری کی خبر افغانستان کی جیل سے لے کر امریکی جیل تک قید و بند کی سزا، آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر کی گمشدگی جو آج تک بازیاب نہیں ہو سکے، بلوچستان کے سابق وزیر اعلی سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اور سابق وزیر اعلی بلوچستان سردار اختر مینگل کے بھائی اسد اللہ مینگل کی گمشدگی اور ہلاکت جس کی لاش تک نہیں ملی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار سے معزولی اور پھانسی کی سزا ان کے بیٹوں میر مرتضی بھٹو اور میر شاہ نواز بھٹو کی پراسرار ہلاکت اور پھر عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی شہادت اور بلوچستان کے سابق گورنر اور سابق وزیر اعلی نواب اکبر خان بگٹی کی پراسرار موت کے باوجود نواب اکبر خان بگٹی کے بیٹوں میر اسد اللہ مینگل کے والد سردار عطاء اللہ مینگل اور بھائی سردار اختر مینگل نے علیحدگی کا راستہ اختیار نہیں کیا اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے پسماندگان اور ان کی جماعت نے علیحدگی کا راستہ اختیار نہیں کیا لیاقت علی خان کی اہلیہ محترمہ نے اپنے شوہر کی شہادت پر اور نہ ہی آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے شوہر کی گمشدگی پر علیحدگی کا راستہ اختیار کیا اسی طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف 3 بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور تینوں بار اقتدار سے معزولی ہوئی اس کے باوجود انہوں نے بھی علیحدگی کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ پاکستان کو اپنا گھر اور اپنا وطن سمجھتے ہیں اور پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنی سیاسی جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہی بہتر راستہ اور مثبت سوچ ہے ۔ اگر کریمہ بلوچ بھی پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے جائز حقوق کے لئے جدوجہد کرتیں تو ان کا نہ صرف بلوچستان میں بلکہ پاکستان بھر میں بڑا نام اور مقام اور احترام ہوتا مگر افسوس کہ انہوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جسے پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ پسند نہیں کرتے ۔
کریمہ بلوچ کی وجہ شہرت علیحدگی پسند تحریک سے وابستگی ہے حالانکہ وہ ایک بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں وہ بلوچی اور اردو میں بہت اچھی شاعری کرتی تھیں اچھی شاعرہ ہونے کے علاوہ وہ بہت خوب صورت بھی تھیں جن کی خوب صورتی پر ایک بلوچ خاتون صحافی نے ان کی آنکھوں کو موضوع سخن بناتے ہوئے ایک آرٹیکل لکھا تھا جبکہ ایک اور بلوچ دانشور نے کریمہ بلوچ پر ” شربتی آنکھوں والی” کے عنوان سے ایک کالم لکھ ڈالا تھا تاہم بہت سے بلوچ بزرگ کریمہ بلوچ صاحبہ کو عزت اور احترام اور محبت و شفقت سے بانک کریمہ یا بانڑی و دیگر القاب سے مخاطب کرتے تھے جن کے معنی بیٹی، بہن اور اماں کے ہیں ۔ کریمہ بلوچ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی بلوچ لڑکی اور عورت تھیں جن کو ایک سیاسی تنظیم( بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ) آزاد کی چیئرپرسن منتخب کیا گیا تھا اس تنظیم پر پاکستان کی مخالفت کی بنا پر 2013 میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی ۔ کریمہ بلوچ 1986 میں دبئی میں پیدا ہوئی تھیں تاہم 5 سال کی عمر کے بعد وہ اپنے آبائی وطن واپس آ گئیں بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تمپ میں ان کا آبائی گاؤں واقع ہے ۔ معروف لوک داستان سسی پنوں کے کردار پنوں اور اردو اور بلوچی کے ممتاز شاعر عطا شاد کا تعلق بھی اسی ضلع کیچ سے تھا ۔ کاش کریمہ بلوچ علیحدگی اور مزاحمتی تحریک کے بجائے پاکستان کے آئین کے مطابق سیاسی جدوجہد کرتیں تو شاید وہ بلوچستان کی سرزمین پر ایک بہتر سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی اور ایک بہترین ادیبہ اور شاعرہ کی حیثیت سے بھی ایک اہم مقام اور مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتیں ۔ کریمہ بلوچ کی ایک اردو نظم قارئین کی نذر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔ میں زندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔
کبھی دروازہ گر کھٹکے،
کبھی زنجیرِ پا چھنکے،،
کبھی جو روشنی زندان کے تاریک سوراخوں سے
تجھکو جھانکنے آئے،
کبھی جو یاد کی تتلی تِری پلکوں کے آنگن میں اتر آئے،
کبھی جو زخمِ جاں میں ٹیس سی اٹھے،
چبھن کے تار بَج جائیں
کبھی ہنسنے کو جی چاہے
کبھی رونے کو پر تولو
کھبی پہلو کی کالی کوٹھڑی سے جب کوئی مانوس سی آواز
سبک رفتار سی بن کر ترے کانوں میں پڑ جائے
ترے دل کو بڑی حسرت سے دیواریں گرانی ہوں
کبھی وہ گیت تیرے لب دوبارہ گنگنا اٹھیں،
جسے ہم ساتھ گاتے تھے
سمجھ لینا کہ میں زندہ ہوں،
تمہاری یاد کے سائے
تمہاری آرزو لے کر
تمہارے ساتھ پھر وہ گیت گانے کو
پھر اک موسم بتانے کو
تیری نا امیدیوں کے قید خانے کو
کسی آزاد پنچھی کے پروں پر باندھنے،
اونچی فضاؤں میں تری پرواز کے سنگ دور جانے کو
میں اب بھی منتظر ہوں
اور اسی خواہش میں زندہ ہوں
تِری یادوں کے روشن راستوں پہ سانس لیتی ہوں۔
” کریمہ بلوچ ”