کراچی (مدثر غفور) 20 روز قبل ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی کو آگاہ کیا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے سینیئر معزز جج چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ محمد شفیع صدیقی کی فیک آئی ڈی بنا پر کوئی شخص قابل اعتراض مواد سوشل میڈیا پر شیئر کر رہا ہے۔ جس پر رواں برس کی انکوئری نمبر 2171/24 مارک ہوئی۔
مذکورہ معاملے کی تحقیقات سائبر کرائم سرکل میں تعینات سب انسپیکٹر امیر کھوسو کو تقویض کی گئی۔ معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکل سربرا ایڈیشنل ڈائریکٹر عامر نواز اور مہینوں سے تعینات قائم مقام ڈائریکٹر مجاہد اکبر تفتیشی افسر کی معاونت کرتے رہے لیکن تین ہفتے گزرنے کے باوجود اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ہے جس پر عدالت عالیہ کی جانب سے نہ صرف تشویش اور برہمی کا اظہار کیا گیا بلکہ روزانہ طلب کرکے تحقیقات کی پیشرفت معلوم کی گئی اور تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ڈائریکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر اور تفتیشی افسر کی متعدد بار سرزنش بھی کی گئی۔
اجنبی کے مطابق صرف اتنا علم ہو سکا ہے کہ مذکورہ فیک آئی ڈی کے لیے سم گلگت سے جاری ہوئی۔ ادارے کی کارکردگی اور پیشہ ورانہ صلاحیت خاص طور تینوں افسران پر بھی سوال اُٹھائے گئے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سائبر کرائم ونگز میں تعینات اعلی افسران میں کوئی بھی سائبر تحقيقات میں ایکسپرٹ نہیں اور ان کا مکمل انحصار نا تجربہ کار فیلڈ افسران پر ہی ہوتا ہے اس لیے ہائی پروفائل کیسز میں کارکردگی صرف صفر ہی رہتی ہے۔
کراچی سائبر کرائم کے افسران زیادہ تر چھوٹے موٹے بلیک میلنگ کے کیسز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ مدعی اور ملزم سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ فائننشل فراڈ کی تحقیقات میں کبھی کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوتی۔ اسی غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ سے نیا ادارہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے قیام کا عمل لایا جا رہا تھا مگر ایف آئی اے کے اعلی افسران نے اس پروپوزل کو ختم کروا دیا۔
اس مذکورہ تحقیقات کے حوالے سے سائبر کرائم سرکل کراچی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر عامر نواز سے متعدد بار رابطہ کیا گیا اور انہوں نے ایک دفعہ بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ اطلاع غلط ہے مگر بعد میں یقین دہانی بھی کروائی کہ تفصیلات بتا دیں گے لیکن انہوں نے بعد میں تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ قائم مقام ڈائریکٹر ساؤتھ زون مجاہد اکبر سے بھی رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے بھی جواب دینے سے گریز کیا، مقدمے کے تفتیشی افسر امیر کھوسہ نے رابطہ کرنے پر جواب دیا کہ تحقیقات جاری ہیں اور کیس سینئیر کے پاس ہے، کچھ پیشرفت ہوئی ہے لیکن میں کچھ زیادہ تفصیلات اس لیے نہیں بتا سکتا کہ میں (حیرت انگیز طور پرانتہائی حساس تحقیقات سپرد ہونے کے باوجود) رخصت پر ہوں۔