پشاور: سینٹرل جیل پشاور سے وائرل ویڈیو نے دھوم مچا دی۔ ئی جی جیل خانہ جات پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔ سینٹرل جیل پشاور میں قیدی اور حوالاتیوں سے موبائل برآمدگی ٹوپی ڈرامہ نکلا، جیل کے اندر موبائل سے قیدی اور حوالاتیوں کی ٹک ٹاک ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔
اطلاعات کے مطابق جیل کے اندر ایک بیرک کو ڈانس پارٹی کے لیے وقف کر دیا گیا۔ بیرک میں میوزک اور خصوصی لائٹوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
جیل انتظامیہ مبینہ طور پر ڈانس پارٹی کے لیے ایک رات کے لاکھوں روپے وصول کر رہی ہے جبکہ جیل کے اندر قیدی اور حوالاتیوں کی اپنی موج مستیاں جاری ہیں۔ نئے تعینات ہونے والے سپریڈنٹ سینٹرل جیل پشاور ببی قیدی اور حوالاتیوں کے سامنے ہینڈز اپ ہوگئے۔ آئے روز سینٹرل جیل کے اسکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
خیبر پختون خواہ کہ آئی جی جیل خانہ جات جو کہ ڈی ایم جی گروپ سے آئے ہوئے ہیں ان کی تعیناتی پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا اس محکمے کے بارے میں کوئی خاص تجربہ نہیں ہے جس کی وجہ سے صوبے کی مختلف جیلوں کی حالت زار اور موجودہ حالات کے پیش نظر بہت خراب ہو چکی ہے۔
صوبے کے پی کے کی اہم ترین سینٹرل جیل پشاور کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ موبائل برآمدگی روز قبول ہے مگر اس پر کنٹرول کرنے میں انتظامیہ کیوں بے بس ہے۔ کیا آئی جی جیل خانہ جات کو علم نہیں ہے کہ ان جیلوں کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ جیل کے اندر منشیات ڈانس پارٹیاں منڈا خانے سے مبینہ طور پر اپنے من پسند لڑکوں کو دوسرے بیرک مین شفٹ کرانا اور پیسے لینا دھندے میں کون ملوث ہے کیا اس کا پتہ چل جائے گا یا صرف انکوائری ادھر جیلوں کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے۔ قیدی اور حوالاتیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک بھی ہو رہا ہے مگر آئی جی جیل خانہ جات صرف اپنا ٹائم پاس کر رہے ہیں۔ اسی طرح سفارشوں پر اگر دینی پارٹی اپنے من پسند افسران لگائے گی تو محکمے کا یہی حال ہوگا جیسا کہ سینٹرل جیل پشاور کا جیل کے اندر آئے روز باقاعدہ طور پر ڈانس پارٹیوں کا پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔ جبکہ جیل انتظامیہ جیل کے اندر سے سب اچھا کی رپورٹ پیش کر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں بھی جیل کے اندر سے 47 سے زائد موبائل برامد ہوئے تھے جن میں سے کہا جا رہا ہے کہ اکثر موبائل اہلکاروں نے اپنی جیبوں میں ڈالی اور آئی جی کو مامو بنا ڈالا جیل کے اندر سے اطلاعات آرہی ہیں ابھی بھی انتظامیہ کی مدد سے بیرکوں میں موبائل موجود ہے اور سوشل میڈیا پر خطرناک قیدی اور حوالاتی اپنی ٹک ٹاک ویڈیو وائرل کر رہے ہیں جو کہ اس محکمے کے لیے بدنامی کا باعث ہے۔