تحریک عدم اعتماد اور مائنڈ چینجرز

0
134

تحریر: محمد سہیل مظہر

سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بتا رہے تھے کہ اگر کوئی پارٹی ممبر عدم اعتماد میں اپنی پارٹی سے انحراف کر جاتا ہے (اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے) تو آئین کے آرٹیکل 63 کے مطابق حکومت اس کے خلاف تب تک کوئی آئینی چارہ جوئی نہیں کر سکتی جب تک وہ عدم اعتماد کا ووٹ اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم کے خلاف ڈال نہ دے۔

اس کے بعد بھی مقتدرہ جماعت کو صرف یہ حق حاصل ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے تو وہ ڈکلیئر کرے گا کہ وہ ممبر اپنی پارٹی کی سیٹ کھو چکا ہے جس نے اپنی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیا۔ اس سے قبل اسے سیٹ سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

تحریک انصاف وہ جماعت ہے جسے سیاسی نابالغ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ اس لیے کہ اس کے موجودہ حکومتی ممبران منحرف اراکین پر ذاتی حملے کرنے میں مشغول ہیں، گالیاں دیے جا رہے ہیں اور بے ضمیر جیسے القابات سے نواز رہے ہیں۔ بجائے اس کے وہ انہیں منانے کے لیے ہر سیاسی چال چلتے جس میں سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی بچ جاتی۔

سیاست ایک کھیل ہے اور اس کھیل میں وہی کامیاب کھلاڑی ہے جو پینترے بدلنے کا ماہر ہو۔ عاشقِ رسول، امر بالمعروف کا داعی، اسلام کا مجاہد، امت مسلمہ کا لیڈر اور حق کا ساتھی و باطل کے چیتھڑے اڑانے والا وہ وقتی نعرے ہیں جنہیں استعمال کر کے سادہ لوح عوام کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح کے نعرے اور سلوگن پاکستان میں ہر جماعت استعمال کرتی ہے کیونکہ انہیں “مائنڈ چینجرز” یہ سب پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ اب آپ یہ پتّہ کھیلو تو کامیاب ہو جاؤ گے۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار اپنے مقاصد کے لیے آئینی کارڈ کھیلنے کی بھی مکمل سپورٹ کی جاتی ہے۔

وقت آنے پر کوئی دودھ سے دُھل جاتا ہے تو کوئی کرپٹ، چور اور ڈاکو کہلایا جاتا ہے۔

کوئی نکلا بے آبرو ہو کر
کوئی چاک گریباں سے پھرتا ہے
کوئی کٹ مرتا ہے اپنے وعدوں پہ
کوئی پل میں زباں سے پھرتا ہے

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں