سجاد عباسی کی کتاب صحافت بیتی

0
11

تبصرہ: مقبول خان

کتاب صحافت بیتی 7 دہائیوں پر محیط پاکستانی صحافت کی کہانی اہم شاہدین کی کہانی ہے۔ سینئر صحافی سجاد عباسی کی یہ کتاب گزشتہ چند برسوں کے دوران روزنامہ امت میں قسط وار شائع ہونے طویل انٹرویوز کا مجموعہ ہے، یہ انٹرویوز مذکورہ اخبار میں قسط وار شائع ہوئے تھے۔ کتاب میں دنیائے صحافت کے جن مشاہیر کے انٹرویوز شامل ہیں، ان میں محمود شام، مظہر عباس، انور سن رائے، وسعت اللہ خان، نذیر لغاری، عارف الحق عارف اور فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین شامل ہیں۔

کتاب صحافت بیتی کو اگر پاکستانی جہان صحافت میں آباد ہفت اقلیم کا قصہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ صحافت بیتی میں سجاد عباسی نے پاکستان کے جن معتبر اور مستند صحافیوں کے انٹرویوز شامل کئے ہیں، ان میں سے بیشتر صحافیوں نے پرنٹ میڈیا کے ابتداء سے ارتقائی عمل کو دیکھا ہے۔ یہ لوگ پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔

کتاب کے سرسر سری مطالعہ اور اس میں شامل مشاہیر بالخصوص شام جی کے انٹر ویو کے مطالعہ کے بعد مجھے یہ سمجھنے میں تامل نہیں کہ یہ کتاب پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے عروج اور زوال کی داستان ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کتاب صحافت بیٹی پرنٹ میڈیا کی تاریخی دستاویز ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ صحافت بیتی میں سجاد عباسی نے جن شخصیات سے انٹرویوز کئے ہیں اور جس انداز سے وقیع سوالات کئے ہیں، ان کے ذریعہ نہ صرف صحافی کے شعبہ کے معروضی حالات سامنے آتے ہیں، بلکہ یہ ان شخصیات کی مختصر آپ بیتی اور شعبہ صحافت سے متعلق ان کے تجربات اور مشاہدات بھی سامنے آتے ہیں۔ جو جونیئر صحافیوں کے ساتھ عام قارئین کے لئے بھی معلومات افزا اور دلچسپ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب کے مندرجات سمجھنے کے لئے میں یہاں معروف صحافی اور دو کتابوں کے مصنف عبد الخالق بت کے ایک مضمون کے چند جملوں کو نقل کرتا ہوں، جو اس کتاب میں قلم گوئد کے عنوان سے شامل ہے۔ (جہاندیدہ محمود شام کن تنگنائیوں سے گزرتے ہوئے جھنگ سے جنگ پہنچے۔ ڈیرہ غازی خان کے نذیر لغاری کس طور ڈیرے بدلتے کوچہ صحافت میں بامراد ٹہرے، عارف الحق عارف کی عارفانہ صحافت کے تجربات جبکہ مظہر عباس کی روداد ہے کہ ہمہ خانہ آفتاب است کا مصداق ہے۔ اس کے علاوہ انور سن رائے کے دلگداز حالات، اور چشم کشا واقعات، اور وسعت اللہ خان کی وسعت نظر کا احوال بھی کتاب کا حصہ ہے۔ ان اصحاب صحافت میں زیاہد حسین کا معاملہ کسی قدر مختلف ہے، اوروں نے جو کام قلم سے لیا ،انہوں نے وہ کام کیمرے سے انجام دیا۔)

صاحب کتاب سجاد عباسی کی لگ بھگ چار دھائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستگی ہے۔ وہ خود اپنے تعارف میں کہتے ہیں کہ روزنامہ حریت سے وہ زمانہ طالب علمی میں ہی وابستہ ہوئے، حامد سعیدی جیسے استاد صحافی سے صحافت کی بنیادی تربیت حاصل کی۔ بین الا اقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرنے والے سجاد عباسی نے حریت کے بعد روزنامہ پبلک سے منسلک ہو گئے۔ جہاں انور سن رائے اور نذیر لغاری جیسے کہنہ مشق صحافیوں کی سرپرستی میں صحافت میں نکھار اور قلم میں روانی کا ہنر حاصل کیا۔ 1995میں نذیر لغاری کی ادارت میں جنگ گروپ کے شام کے اخبار عوام کا اجراء ہوا تو نیوز ایڈیٹر کے لئے نذیر لغاری نے ان کا انتخاب کیا۔ 1999میں امت گروپ آف پبلی کیشنز کے ہفت روزہ غازی کے مدیر مقرر ہوئے۔ اس وقت وہ اس گروپ کے اخبار میں کئی برسوں سے بطور گروپ ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ پشاور اور راولپنڈی سے امت کا اجراء بھی انہیں کی سر پرستی میں ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ ایک اور کتاب من آنم کے نام سے زیر طبع ہے، جس میں وہ اپنے تلخ صحافتی احوال کا زکر شامل کر رہے ہیں۔

کتاب صحافت بیتی 432 صفحات پر مشتمل ہے۔ سجاد عباسی کی یہ کتاب نئے اور پرانے صحافیوں سمیت صحافت کے طلباء و طالبات کے لئے ایسی اہم اور شعبہ صحافت کی مستند ہستیوں کے انٹرویوز کئے ہیں، وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ اور ان سے استفادہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب ایک فکری سفر ہے، جو آزادی صحافت کی جدوجہد سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ ان کے سات معتبر صحافیوں کی زاتی زندگی، اور صحافتی تجربات، پیشہ ورانہ جدو جہد اور مشاہدات سے بھی روشناس کراتے ہیں۔ آواز پبلیکشنز کے تحت شائع ہونے والی اس کتاب میں علی حمزہ افغان، احمد آفتاب، عبدالخالق بٹ اور راشد عباسی نے بھی کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کتاب کا سرورق طارق عزیز کا تخلیق کردہ ہے، سرورق اگر چہ سادہ ہے، لیکن کتاب کے نام سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب صحافتی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرے گی۔ یہ کتاب صحافیوں کے لئے کسی قیمتی تحفہ سے کم نہیں ہے، جس کے لئے سجاد عباسی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں