تحریر: رابعہ خان
قوموں کی ترقی و سربلندی میں نوجوانوں کا ایک اہم رول رہا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی و تنزل اور عروج و زوال میں نوجوانوں کا کردار ہوتا ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی طور پر ہو یا اقتصادی، سائنسی میدان ہو یا پھر کوئی بھی معاشرتی سرگرمیاں نوجوان نسل ہمشہ جوش و خروش سے اپنا حصہ ڈالنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ صلاحیتوں، حوصلوں، امنگوں اور بلند پروازی کا دوسرا نام ہی تو نوجوان ہے۔ اسی لحاظ سے اگر ڈیجیٹل دور کو دیکھا جائے تو یہاں بھی نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور معاشرے میں اپنا ایک الگ مقام حاصل کرنے میں پرجوش ہے۔ خود کو جدید سائنسی و دیگر ٹیکنالوجیز سے متعارف کروا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا میں بہت ہی بہتر مہارتیں حاصل کر کے مقام بنانے میں، خود کو اجاگر کرنے اور ان جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ ہو کر ایک بہترین مستقبل کی جانب کوشاں ہیں۔
مگر جہاں نوجوان نسل نے خود کو ڈیجیٹل دنیا سے متعارف کروایا ہے وہی انہیں کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ آج کے موجودا دور کی پروان چڑھنے والی یہ پہلی نسل ہے جو ڈیجیٹل مشین یعنی موبائل فونز، کمپوٹر و دیگر ٹیکنالوجیز کو اپنی زندگی میں ایک اہم جز تصور کر چکی ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً 71 فیصد افراد ہیں جو انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں آن لائن کام کر رہے ہیں یا پھر دنیا بھر کی دیگر معلومات سے وابستہ ہونے و کچھ نیا سیکھنے کے غرض سے۔ ان نوجوانوں میں زیادہ تعداد کم عمر بچوں کی ہے جنہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ٹیکنالوجی کو استعمالات میں کیسے لانا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا آنے والا مستقبل ہوا کرتے ہیں لیکن بچوں کو سہی گائیڈ لائن نہ ہونے کے باعث ٹیکنالوجیز کا مثبت استعمال نہیں کر پاتے اور منفی رجحانات کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ اس لئے والدین کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں مکمل گائیڈ کریں اور توجہ دیں کہ بچے کیا دیکھ و سن رہے ہیں ان میں ڈیجیٹل دور میں ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کرنے کا شعور بیدار کریں۔ کیوں کہ جہاں جدید دور کی سہولیات میسر ہوں وہاں منفی اثرات بھی ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سوشل میڈیا کرائم عروج پر ہے اس وقت لوگوں کو اپنی پرسنل انفارمیشن کسی غیر و اجنبی سے شئیر کرتے ہوئے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے آج کے نوجوانوں کو جس طرح ٹیکنالوجی کے حوالے سے فروغ مل رہا ہے اس کی تربیت پا کر ایک مثبت معاشرہ قائم کرسکتے ہیں اور خود کو با اختیار بنا سکتے ہیں اور بنا بھی رہے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو مختلف شعبہ جات قائم کر دئیے گئے ہیں تربیت کے لئے مختلف پروگرامز منعقد کئے جانے لگے ہیں جہاں نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاں سب سے خوش آئندہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل دنیا میں تربیت حاصل کرنے والے نوجوانوں میں زیادہ تر تعداد پسماندہ علاقات کی ہوتی ہے خاص طور پر خواتین جو معاشرے میں خود کو منوا رہی ہیں۔ ایسے کئی نوجوان ملیں گے جو مقامی اداروں سے فری لانسر و دیگر تربیتی کورسز کر کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر خود کو منوا رہے ہیں اور کامیاب ہو رہے ہیں۔
24گھنٹوں میں تقریباً 12 سے 13 گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے 2010 سے پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا بڑی تیزی سے رحجان پیدا ہوا اور اگر جدید سائنسی دور کی بات کریں تو سوشل میڈیا کا استعمال سراسر غلط چیزوں کے لئے کیا جاتا ہے یا تو دوسروں کی کردار کشی کرنے میں یا پھر سیاسی پروپگنڈا پھیلایا جاتا ہے یعنی نوجوان نسل مثبت رجحانات سے دور ہو رہی ہے حتیٰ کہ لوگ اپنے حقیقی رشتوں تک سے دور ہو گئے ہیں۔ اپنا قیمتی وقت فضول چیزوں میں صرف کر دیتے ہیں۔ یہی وقت اگر بہتر مستقبل کے لئے لگائیں تو معاشرے میں ایک اچھا رول ماڈل بن سکتے ہیں اور اپنی قوموں و وطن کا نام سر بلند کر سکتے ہیں۔