تبصرہ: مقبول خان
معروف افسانہ نگار، محقق، ہمہ جہت ادیبہ اور کمپیئر ادبی حلقوں بالخصوص افسانوی ادب کے حوالے ادبی حلقوں میں نمایاں شخصیت کی حامل ہیں۔ زیر نظر کتاب خیال مکرر، ان کی تازہ تصنیف ہے۔ یہ کتاب تیسری چاک اردو افسانہ کانفرنس 2024 کے موقع پر شائع کی گئی تھی۔ اس سے قبل صائمہ صمیم کے افسانوں کے دو مجموعے رودالی اور پچھلے پہر کی خاموشی، شائع ہو چکے ہیں، ان دونوں مجموعوں کو پاکستان اور بھارت سمیت اردو دنیا کے ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ ان کا انداز تحریر منفرد اور اسلوب سادہ اور دلنشین ہے۔ صائمہ صمیم قومی نغمات پر مشتمل کتاب پاکستان زندہ باد بھی مرتب کر چکی ہیں۔ جس میں قیام پاکستان سے قبل لکھے گئے قومی نغمات بھی تحریر ہیں۔ صائمہ ریڈیو پاکستان کے پروگرام ادب سرائے میں بھی میزبانی کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔

کتاب خیال مکرر میں صائمہ صمیم ایک محقق کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اس کتاب میں صائمہ نے خیال مکرر۔ کے عنوان سے افسانے کی ابتدا سے اب تک ترقی کے تمام مراحل کا احاطہ انتہائی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ انہوں نے افسانے کے عروج و زوال پر حقائق کی روشنی میں اس کے عروج و زوال کا مطالعہ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ، جسے ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ صائمہ کی اس تحقیق سے اردو کے طالب علم استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ زیر نظر کتاب کی یہ خوبی ہے کہ اس میں بارہ ایسے افسانے پیش کئے گئے ہیں، جو مصنفین نے اپنے اساتذہ کے لکھے شاہکار افسانوں سے متاثر ہو کر لکھے ہیں۔ اس پس منظر میں صائمہ صمیم نے اپنا افسانہ پانچویں بوتل بھی کتاب میں شامل کیا ہے، جو ممتاز افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کے افسانے رئیس خانہ سے متاثر ہو کر لکھا ہے۔ اسی طرح رابندر ناتھ ٹیگور کے افسانے کابلی والا سے متاثر ہوکر انور قمر کا افسانہ کابلی والا کی واپسی کتاب کی زینت بنا ہے۔ زاہدہ حنا کا افسانہ کم کم اب آرام سے ہے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ بھی ایک شہکار افسانہ ہے۔ منشی پریم چند کا افسانہ عیدگاہ کو اسلم جمشید پوری نے 70 سال بعد عید گاہ کو از سر نو تحریر کیا ہے۔ منشی پریم چند کے کم سن حامد کو اسلم جمشید پوری نے 70 سالہ بزرگ کے طور پر ایک شاہکار افسانہ تحریر کیا ہے، جس میں بابری مسجد کی شہادت، گجرات کے فسادات اور روز بروز بگڑتے حالات کو پیش کیا ہے۔ اسی طرح منشی پریم چند کے گﺅ دان کے پس منظر میں سریندر پرکاش کا افسانہ بجوکا اور کفن کے حوالے سے شوکت حیات کا مادھو، اور ٹھاکر کا کنواں کے مرکزی خیال پر اقبال حسن آزاد نے ٹھاکر کا کنواں ہی کے عنوان سے خیال مکرر پیش کیا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے معروف افسانے کھول دو کے موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے نجم فضلی نے کھول دو کے بعد اور ہتک کو امجد جاوید نے ہتک ایزاد کے عنوان سے خیال مکرر کے انداز میں پیش کیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے لحاف والی لڑکی کو عصمت چغتائی کے افسانے لحاف کے نام معنون کیا ہے۔
اردو افسانے کے فروغ میں صائمہ صمیم کا کردار نمایاں ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے چاک اردو کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد کر رہی ہیں۔ اب یہ کانفرنس کراچی کی ایک شناخت بن چکی ہے۔ صائمہ صمیم کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی جانب سے انہیں انعامات و اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ 2023 میں عالمی دن کے موقع پر انہیں بہترین افسانہ نگار کا ویمن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ کتاب خیال مکرر میں صائمہ نے مختلف مصنفین کے کچھ مضامین بھی شامل کئے ہیں، جو ایک موازنہ کے طور پر قابل مطالعہ ہیں۔ یہ مضامین صائمہ صمیم سمیت اسلم جمشید پوری، اقبال حسن آزاد، امجد جاوید اور منیر احمد فردوسی کے تحریر کردہ ہیں۔ 184صفحات پر مشتمل کتاب کا سرورق تجریدی آرٹ کا شاہکار نظر آتا ہے، جسے رنگوں کے امتزاج نے مزید معنی خیز بنا دیا ہے۔ صائمہ صمیم نے اپنی اس کتاب کا انتساب تمام افسانہ نگاروں کے نام کیا ہے۔ امید ہے کہ صائمہ صمیم کی کتاب خیال مکرر نثر ادب بالخصوص افسانے کے قارئین اور افسانے پر تحقیق کرنے طلباءو طالبات کے لئے گراں قدر تحفہ ثابت ہوگی۔