تحریر: مطیع اللہ جان
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی اُن سازشی جرنیلوں، ججوں، سیاستدانوں اور جرنلسٹوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے، اور اپنے گھناؤنے اور ملک سے غدارانہ پراپیگنڈے کے زور پر حکومتیں گرانے اور بنانے میں ملوث رہے۔ لیکن ان موٹی چمڑی اور تھوتھنی والے جانوروں کو تھپڑ محسوس ہی کب ہوتا ہے، افسوس اِس بات کا ہے کہ یہ سب گھٹیا کردار تو ناکام ہو گئے مگر ان کی سازش کامیاب ہو گئی ہے، ملکی معیشت اِس حال پر پہنچ گئی ہے کہ سرمایہ کاری کی گارنٹی حکومت نہیں فوج دیتی ہے اور خود سازش کا شکار سیاستدان اقتدار کے علاوہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اب پر کٹے کبوتروں کو پر کٹے میڈیا کے کیمروں کے سامنے آزاد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اب سیاستدانوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو آئین کی مزاحمت کا بیانیہ ترک کرکے آئین سے مفاہمت بلکہ اس کی تابعداری کا بیانیہ بنانا ہوگا، نواز شریف کی واپسی اور عمران خان کی سیاست سے روانگی ایک ایسا ‘اَن لکی پاکستانی سرکس’ بن چکا ہے جس میں ہاتھی اور شیر سے زیادہ تماشبین عوام سدھائی ہوئی لگتی ہے جو ہر نئے رنگ ماسٹر کے اشارے پر تالیوں اور گالیوں سے نوازتی ہے۔ یہ تالیاں اور گالیاں رنگ ماسٹر کی ریکارڈنگ ہوتی ہیں جن کو اسپیکر پر مرضی سے چلا کر تماش بینوں کے کمزور ردِ عمل میں جان ڈالی جاتی ہے۔
پہلے ہاتھی کی چنگاڑ بُلند سنائی دیتی تھی اور اب اسپیکروں سے نکلتی شیر کی دھاڑ نے ماحول گرما رکھا ہے اور اسپیکر سے نکلتی تالیوں کی گونج سے لگتا ہے کہ اقتدار کے اسٹیج پر بڈھے شیر کو جلد ہی ‘کیٹ واک’ کروائی جائیگی اور اسی سرکس کا بڈھا ہاتھی زنجیر پا رقص جاری رکھے گا۔ زنجیر تو نظام کے پاؤں میں بھی پڑی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاؤں کی زنجیر پہلے ٹوٹے گی یا اس نظام کی زندگی کی ڈور؟۔