اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 26 اگست 2021 ء کو معاملہ سماعت کیلئے مقرر کرنا کا حکم دیدیا۔ عدالت عظمی نے سیکرٹری داخلہ، سیکریٹری اطلاعات و نشریات، سیکریٹری وزارت انسانی حقوق، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹس کے ہمراہ ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔
عدالت عظمی نے وزارت مزہبی امور کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وزارت مزہبی امور بتائے کہ سچ کے فروغ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سیف سٹی پراجیکٹ کی فوٹیج اور اس کے خرچ کی تفصیلات جبکہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور مقدمات کی پیش رفت رپورٹس بھی طلب کر لیں۔
عدالت عظمی نے صحافتی تنظیموں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای)، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے ) اٹارنی جنرل، چاروں صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹسز جاری کر دیے۔
عدالت عظمی نے وزارت اطلاعات سے ایک سال کے اشتہارات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ تمام تحریری جوابات 26 اگست تک عدالت میں جمع کرائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ صحافیوں کو حراساں کرنا عوامی مسئلہ ہے ،آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں از خود نوٹس لیا ہے، عدلیہ تمام شہریوں کے آئینی حقوق کی محافظ ہے۔
جمعہ کو جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ، سینئر صحافیوں عبدالقیوم صدیقی، عمران شفقت، عامر میر اور امجد بھٹی کی جانب سے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ صحافیوں کو حراساں کرنا عوامی مسئلہ ہے، آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں از خود نوٹس لیا ہے، عدلیہ تمام شہریوں کے آئینی حقوق کی محافظ ہے۔ عدالت عظمی نے قرار دیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 11، 13، 14(1)، 14(2)، 15 18، 19، 19 اے، 23، 24(1)، 25 اے کے کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مزکورہ درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور ایجنسیز صحافیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا نہیں کرنے دی جاتیں، صحافیوں پر مسلسل حملے ہوئے اور وفاقی دارلحکومت سے اغواء کیے گئے، بتایا جائے کہ سیف سٹی کیمروں کی موجودگی کے باوجود صحافیوں پر حملے کرنے والے گرفتار کیوں نہیں ہوئے، پیمرا عدالت میں جواب جمع کرائے کہ میڈیا کے خلاف کاروائیوں پر کیا اقدامات کیےگئے ہیں۔
عدالت عظمی نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے آگاہ کریں کہ صحافیوں کی گرفتاری پر کس قانون کے تحت پریس ریلیز جاری کی، ڈی جی ایف آئی اے صحافیوں کے خلاف مقدمات کی لسٹ بھی فراہم کریں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر میں تحریک آزادی کے دوران میڈیا کی آزادی کو خصوصی اہمیت دی، حدیث شریف میں ہے کہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا جہاد اکبر ہے۔