اسلام کی نظر میں عورت کا مقام

0
493

تحریر: معاویہ یاسین نفیس

اسلام نے عورت کو بحیثیت انسان وہ تمام معاشرتی، اخلاقی، روایتی، تعلیمی حقوق عطاکئے ہیں جو بنی نوع کی بنیادی ضرورت ہیں۔ جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹوں کی سیج پر پرونے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔

ایک عورت ماں، بیوی، بہن، بیٹی ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت، وقار اور وفاداری کا پیکر ہے 

خواتین کا احترام دراصل نوع ِانسانی کے احترام کے مترادف ہے۔ اسلام نے جدید ترقی یافتہ نظام کی بنیاد رکھی۔ جہاں حقوق کو غصب کرنا، ظلم و جبر، طاقت کے بے جا استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ بیٹیوں کی ولادت کو باعثِ شرم سمجھنا جیسے دیگر اطوار کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ انسان تو انسان بلکہ ہر جاندار کے حقوق کا احترام سکھایا ہے۔ عورت کو ایسا باعزت مقام عطا کیا ہے جو رہتی دنیا تک مشعل ِ راہ ہے۔ جنس عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا،عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو زندہ دفن  کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا قیامت کے دن خدا کو اس کا جواب دینا ہوگا۔

سورتہ التکویرمیں ارشاد ربانی ہے: وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ بأیِ ذنبٍ قُتِلَت، ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیا گیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔ ایک طرف اس معصوم صنف کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی ہے جن کادامن اس ظلم سے پاک ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔

ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عمہ نے فرمایا کہ ‘تم لوگوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ عورتوں کا حق مہر زیادہ نہ رکھو اگر مہرزیادہ رکھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے’۔ (ترمذی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں حالانکہ سورتہ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً، ترجمہ ‘اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو’۔ جب خدا نے اجازت دی ہے کہ شوہر حق مہر میں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو آپ  اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہیں۔

حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا 

 ترجمہ: تم سب عمر سے  زیادہ علم والے ہو۔ “کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر” 

اس عورت کی آزادی اظہار راۓ پر مراد پغمبر، خلیفہ وقت حضرت عمر کی طرف سے کوئی قدغن نہیں لگایا گیا۔ چادر اور چار دیواری، غیرت و حمیت کے نام پر ہمارے معاشرہ کا ایک قلیل طبقہ عورت کو وہ مقام دینے سے گریزاں رہتاہے جس کی اجازت خود ہمارے مذہب اسلام نے عطا کی ہے۔ 

بد قسمتی سے معاشرہ کے وہ افراد جو چادر و چار دیواری کے نام پرعورت کے ساتھ غیر انسانی و غیر اخلاقی سلوک روا رکھتے ہیں وہ ظاہری طور پر مذہب کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں مگر باطنی طور پر شیطانی صفت کے حامل ہوتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں لاہور کے گریٹر اقبال پارک، مینار پاکستان میں ایک خاتون کے ساتھ پیش آنیوالا واقعہ ہمارے معاشرے کے چہرے  پر ایک بدنما داغ چھوڑ گیا ہے۔ ایسے ملک جس کے آئین کی بنیاد قرآن و سنت ہو اس میں عام رعایا کو شرعی رو سے یہ حق ہر گز حاصل نہیں کہ وہ خود ہی منصف ٹہر کر فیصلہ سنادیں 

سینکڑوں افراد پر مشتمل جہلاء کا وہ جھتہ جس نے ایک صنف نازک کو سربازار تماشہ بنایا انہوں نے غیرت کے مفہوم کی چولیں ہلاکر رکھ دیں۔ 

 ان جنسی درندوں کے والدین کو بھی سوچنا چاہئے کہ ان کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی اب وقت ہے اس کمی کو عنداللہ توبہ تائب ہوکر دور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے یہاں جو بویا جاتاہے وہ ہی کاٹا جاتا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اس گھٹیہ فکر میں رہنے والے افراد کا اجتماعی طور پر مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ کل کسی اور کی عائشہ کی عزت تار تار ہونے سے محفوظ رہے۔ وماعلینا الاالبلاغ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں