تحریر: اشتیاق سرکی
پاکستان کے پہلے اوورسیز کنونشن میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کا خطاب محض ایک تقریر نہیں تھی، بلکہ ایک قومی بیداری، فکری انقلاب اور نئی اُمید کی کرن ثابت ہوا۔ ان کے دل سے نکلے الفاظ قوم کے دل میں اتر گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستانیوں نے اپنی شناخت، وحدت اور طاقت کا احساس ایک بار پھر تازہ کیا۔
جنرل عاصم منیر نے اوورسیز پاکستانیوں کو “پاکستان کے سفیر” اور “قوم کا روشن چراغ” قرار دے کر اُن کی خدمات، قربانیوں اور وابستگی کو سراہا۔ “برین ڈرین” کی اصطلاح کو رد کرتے ہوئے انہوں نے اسے “برین گین” یعنی قومی سرمایہ قرار دیا۔ یہ محض الفاظ نہیں بلکہ ایک جذباتی لمحہ تھا جس میں ہر بیرونِ ملک پاکستانی نے خود کو وطن کے دل کے قریب محسوس کیا۔
اوورسیز پاکستانیوں کو سپہ سالار نے پیغام دیا: “جہاں کہیں بھی رہو، یاد رکھو! تمہاری جڑیں ایک عظیم تہذیب، بلند نظریے اور باوقار شناخت سے وابستہ ہیں۔” یہ نسلِ نو کو اپنی اصل سے جوڑنے کا پیغام بھی تھا، تاکہ وہ پاکستانی شناخت پر فخر کریں اور اپنی ثقافت کو زندہ رکھیں۔
جنرل عاصم منیر نے کشمیر کو پاکستان کی “شہ رگ” اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو “دل کی دھڑکن” قرار دے کر عالمی سطح پر پاکستان کے اسلامی اور انسانی وابستگی کے مضبوط مؤقف کی ترجمانی کی، جو امتِ مسلمہ کے ساتھ ہمارے رشتے کو مزید مستحکم کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دو قومی نظریہ ثابت کرتا ہے کہ ہم برِ صغیر کے مسلمانوں کا رہن سہن، رسم و رواج، عقائد اور عبادات ہندوؤں سے بالکل مختلف ہیں۔ ہم دو الگ الگ اقوام ہیں، اس لیے ہم نے اپنی الگ شناخت چُنی، اور ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کے بعد ہمیں یہ پاک سر زمین حاصل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں دو ریاستیں ایسی ہیں جنہیں اسلام اور کلمے کی بنیاد پر قائم ہونے کا شرف حاصل ہے: ایک ریاستِ طیبہ (مدینہ منورہ) اور دوسری ہمارا پاک وطن پاکستان، جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا۔
آرمی چیف کے خطاب کے بعد بھارتی میڈیا اور سیاست دانوں میں بےچینی اور چیخ و پکار سنائی دینے لگی۔ دو دن بعد بھارتی دفترِ خارجہ کو باقاعدہ بیان جاری کرنا پڑا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنرل عاصم منیر کی باتیں نشانے پر لگیں۔ جب دشمن شور مچانے لگے، تو یہ دلیل بن جاتی ہے کہ آپ حق پر ہیں، اور آپ کی سچائی دشمن کو چبھ رہی ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف کا مزید کہنا تھا کہ “بلوچستان پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔” اور چند مٹھی بھر خوارج یہ سمجھتے ہیں کہ “وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر دیں گے، لیکن ان کی دس نسلیں بھی بلوچستان کو پاکستان سے جدا نہیں کر سکتیں۔”
اس بیان پر عوام کے جذبات یہ ہیں کہ قوم اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، اور ہمیشہ کھڑی رہے گی۔ دشمن چاہے لاکھ سازشیں کرے، پاکستانی عوام کے دلوں سے افواجِ پاکستان کی محبت ختم نہیں کر سکتا۔
پاکستانی قوم سیاچن کی برف پوش چوٹیوں سے لے کر لائن آف کنٹرول تک، بھارت جیسے دشمن کے سامنے آہنی دیوار بنے جوانوں، افسران، شہداء اور غازیوں کی مقروض ہے۔ وہ جو اپنے ہنستے بستے گھروں، خاندانوں اور معصوم بچوں کو چھوڑ کر، تپتی دھوپ میں سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں، اور برفانی بلندیوں پر وطن کا پہرہ دے رہے ہیں۔ یہ سپاہی کسی مخصوص ادارے کا حصہ نہیں، بلکہ پوری قوم کا فخر اور انمول اثاثہ ہیں۔ ان کی قربانیاں ہماری قومی شناخت اور آزادی کی ضمانت ہیں۔
یہی یکجہتی دشمن کے لیے سب سے بڑی شکست ہے، اور یہی اتحاد پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہو رہا ہے۔ جو عناصر افواج اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل دشمن کے آلۂ کار ہیں۔ پاکستانی قوم ان کے تمام منصوبے خاک میں ملا دے گی۔
سپہ سالار کے واضح اور پرعزم پیغام کے بعد، عوام بھی پورے جوش سے کہتی ہے کہ یہ وطن ہمارے آباؤ اجداد، غازیوں اور شہداء کی قربانیوں سے قائم ہوا ہے، اور ان شاء اللہ تا قیامت قائم رہے گا۔ یہ ناقابلِ تسخیر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے جسے نہ چند مٹھی بھر وطن فروش گرا سکتے ہیں، نہ دنیا کی کوئی طاقت اسے ہلا سکتی ہے۔
عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے ہم پاکستانی افواج کے ایک سپاہی سے لے کر سپہ سالار تک سب کو سلام پیش کرتے ہیں: “افواجِ پاکستان، قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔” ہم اپنی آخری سانس تک اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں ایک قوم، ایک دل، ایک پاکستان۔
پاکستان ہمیشہ زندہ باد! تاقیامت زندہ باد