مادری زبان یا ماں بولی

0
8

تحریر: پیرزادہ سلمان

کل 21 فروری مادری زبان کا عالمی دن ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسے دنوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ دنیا آج جس لایعنی منزل کے رستے پر ہے اور جتنا میں نے لکھا پڑھا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گھروں میں بولی جانے والی بولی کی کبھی اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ہر آدمی اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہا ہے، ہر قوم (مشرقِ وسطی سے لے کر بھارت تک) اپنے ماضی کی طرف دیکھ رہی ہے۔  شناخت اور ماضی زبان سے منسلک ہیں۔ اور زبان ثقافت کے اہم ترین اجزا یا عناصر میں سے ایک ہے۔

پاکستان میں اردو بولنے والوں کی، یعنی جن کی ماں بولی اردو ہے، ایک بہت بڑی تعداد ہے لیکن انہیں سمجھنا اور قبول کرنا دوسروں کے لیے ذرا سا مشکل ہو گیا۔۔۔ کردیا گیا ہے۔ پنجاب میں جو اردو بولنے والے گھرانے بٹوارے کے بعد آباد ہوئے، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں، وہ میرا گمان ہے اب اردو کو اپنی شناخت نہیں بتاتے اور پنجاب میں ضم ہو گئے ہیں۔ ان میں راجستھان (ٹونک، لونا وغیرہ)، ہریانہ (فریدآباد، کرنال، سرہند شریف وغیرہ) اور دلی کے آس پاس (تھانہ بھون، سہارنپور، کیرانہ وغیرہ) کے لوگ شامل ہیں۔ دوسرے صوبوں میں صورت مختلف ہے۔

کراچی میں اردو بولنے والے 1990 کی دہائی تک 55 فی صد سے زیادہ تھے۔ اب رائے شماری کے حساب سے شاید 42 فی صد بتائے جاتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تمام اردو بولنے والے یوپی یا سی پی (آج کا مدھیا پردیش) کے نہیں ہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اور پاکستان کو اپنا وطن بنائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان میں بِہار، حیدرآباد دکن، مدراس، مہاراشٹرا اور ،جیسا پہلے لکھا، راجستھان، ہریانہ اور دلی والے شامل ہیں۔ جب یہ لوگ آئے تھے تو ان سب کے اپنے اپنے منفرد لہجے اور محاورے تھے جو اب 75 برس بعد بہت حد تک کراچی والا لہجہ اختیار کر چکے ہیں۔ اب کراچی کی اردو اپنا ایک رنگ لیے ہوئے ہے جس کے محاورے ہندوستان کی زمین سے نہیں اٹھے بلکہ اس میں کراچی کی مٹی سے لیے گئے الفاظ شامل ہیں جنہیں انگریزی میں ‘سلینگ’ کہا جاتا ہے۔
اردو کمال کی زبان ہے۔ کل میں آن لائن گاڑی میں گھر کی طرف جا رہا تھا تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ رستہ لمبا ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے گانے سنا دو۔ اس نے میرا حلیہ دیکھ کر کہا کہ جو میں سنتا ہوں وہ آپ نہیں سنیں گے۔ میں نے پوچھا کس کو سنتے ہو۔ جواب دیا عطااللہ عیسی خیلوی اور وہ بھی اس کی غزلیں۔ میں نے کہا میں تو سب کو سنتا ہوں، عطا کو بھی پسند کرتا ہوں۔ معلوم ہوا اس ڈرائیور کی مادری زبان اردو نہیں تھی مگر وہ اس کی گائی ہوئی غزلوں کا عاشق تھا۔

اردو کی جو صوتیات ہیں اور اس کا آہنگ شاعری کے لیے موزوں ہے، نثر کے لیے نہیں۔ اسی لیے اردو رابطے کی ہی نہیں بلکہ عشق کرنے کے لیے بھی کمال کی زبان ہے۔ اور مجھے اپنی اردو سے عشق ہے۔
آپ سب کو اپنی اپنی ماں بولی کا دن مبارک ہو!

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں