تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
انسانی سوچ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ اپنی حد پار نہیں کرتی۔ یہ جس مذہب، مسلک، برادری، روایات، سیاسی وابستگی کے اردگرد پروان چڑھتی ہے اسی کی حد میں رہتی ہے اور اگر کوئی اس حد میں میں گھسنے کی کوشش کرے تو یہ چیتے کی طرح اس پر جھپٹ پڑتی ہے۔ انسان کی سوچ اس کی سب سے بڑی پرائیویسی ہے۔
آج کی انسانی سوچ صنعتی انقلاب سے پہلے والے انسان کی سوچ بن چکی ہے۔ غلامانہ سوچ اُس زمانے میں وہ سوچ اشرافیہ کی دین تھی جبکہ آج کی سوچ الگورتھم کی دین ہے۔
معاشروں کی تقسیم ( پولرائزیشن)، ڈیجیٹل مارکیٹینگ اور ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کا اصل نسخہ الگورتھم ہے۔
انسانی سوچ کا محرّک علم، مشاہدہ، حالات، ماحول ہوتا ہے۔ اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ کا الگورتھم وجود میں آیا تاکہ آزاد انسانی سوچ کو ایک جگہ قید کر کے اسے کوئی رخ دیا جا سکے۔ سادہ لفظوں میں الگورتھم ایک حصار ہے، جس کے اندر بار بار آپ کو وہی دکھایا جاتا ہے جو آپ پسند کرتے ہیں۔ ایک ہی موضوع کے متعلق آپ کے خیالات سے مطابقت رکھنے والی چیزیں دکھاتے ہیں۔ جس سے انسان کا ‘کنفرمیشن بیاس’ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہ حصار اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی نیا خیال گھسنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ سادہ لفظوں میں انسانی ذہن تقریبا اخروٹ بن جاتا ہے۔
اگلا مرحلہ نیٹ ورک ہے اور الگورتھم کی وجہ سے انٹر نیٹ پر پھر ہم خیال لوگوں کا ایک گروپ بن جاتا ہے جو الگورتھم کی دی گئی سوچ کے ارد گرد ہی رہتا ہے۔ یہ ٹیکنیکل گھمن گھیری ہے۔
اب مصنوعی ذہانت بھی تشریف لاچکی ہے۔ مصنوعی ذہانت کو جس ڈیٹا پر ٹریننگ دی جاتی ہے (جو ڈیٹا فیڈ کیا جاتا ہے) وہ اسی کے اندر سے جواب تلاش کرتی ہے۔ کیونکہ فی الحال ہمارے پاس مصنوعی ذہانت کو خود ڈیولپ کرنے کی استطاعت نہیں تو ہم غیر ملکی مصنوعی ذہانت پر انحصار کریں گے۔ اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو الگورتھم کا نکلا۔ الگورتھم تصوراتی دنیا کو حقیقی دنیا دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مصنوعی ذہانت ‘صمد بانڈ’ جو اس تصور کو جوڑے رکھتا ہے۔