کسٹم اور اے ایس ایف میں کشیدگی برقرار

0
56

تحریر: سمیر قریشی

ایک بار پھر کسٹم اور ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے درمیان کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر کشیدگی کا آغاز ہوگیا ہے، کہانی شروع ہوتی ہے دو روز قبل سے جب ایک مسافر دبئی جارہا تھا کہ ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے عملے نے اس کا سامان چیک کیا تو اس میں سے فروزن سی فوڈ برآمد ہوا جس پر اس کو روک کر اس کو ہتھکڑیاں لگائیں گئیں اور اس کی تذلیل کی گئی، اس تمام واقعہ کی ویڈیو تو وائرل ہوئی ہی لیکن کسٹم کے ایک افسر راشد نے اعلیٰ حکام کو تمام صورتحال سے تحریری طور پر بھی آگاہ کردیا کہ مسافروں کے ساتھ اس قسم کے سلوک سے کسٹم کی بدنامی ہوتی ہے، اس صورتحال کے بعد ہوتا ہے دونوں اداروں میں کشیدگی کا آغاز کہ پیر کی صبح جب کسٹم افسر راشد اپنی ڈیوٹی پر ائیرپورٹ پہنچے تو اے ایس ایف کے عملے نے ان کو اندر جانے سے روکا اور کہا کہ ان کا ائیرپورٹ کا پاس منسوخ کردیا گیا ہے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی دکان کھولنے اندر نہیں جارہے وہ سرکاری افسر ہیں اور ڈیوٹی پر جارہے ہیں لیکن ذرائع کے مطابق اے ایس ایف کا موقف تھا کہ ائیرپورٹ کی سکیورٹی ان کے ہاتھ میں ہے اور جب چاہیں وہ پاس کو منسوخ کرسکتے ہیں، اعلیٰ حکام نے ان کے پاس کو منسوخ کیا ہے، اس کے بعد ائیرپورٹ پر موجود تمام کسٹم کے افسران احتجاجا ایئرپورٹ سے باہر آگئے اور بین الاقوامی روانگی ہال کے سامنے جمع ہوگئے، اسی دوران تین پروازیں سعودی ائیر لائن کی حج پرواز ایس وی3701، دوحا کے لیے قطر ائیر لائینز کی پرواز کیو آر 611، اور ائیرعربیہ کی پرواز جی 9543 بغیر کسٹم کے روانہ ہوئیں کیونکہ کسٹم حکام کاﺅنٹر بند کرکے باہر چلے گئے تھے۔

اس احتجاج کے بعد اے ایس ایف کے اعلیٰ حکام نے بعد میں دو سے تین گھنٹے بعد یہ پیغام بھیجا کہ کسٹم افسران کے ائیر پورٹ پاسز بحال کردیے گئے ہیں اور واپس وہ اپنے کاﺅنٹر پر جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس فورس، کسٹم حکام اور اے ایس ایف کے حکام شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں ذرائع بتاتے ہیں کہ اے ایس ایف کے خلاف شکایتوں کے انبار لگادیے گئے لیکن اے ایس ایف کی جانب سے نرمی نہ ہوئی اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا اور اس ضمن میں ایک کمیٹی بنادی گئی ہے اور سیکریٹری ایوی ایشن اب اس کی انکوائری کریں گے کہ غلطی کس ادارے اور افسران کی تھی، اس اجلاس کے بعد اے ایس ایف نے اپنے اعلیٰ حکام اور کسٹم حکام نے ممبر کسٹم کو اپنی اپنی رپورٹس تحریری طور پر بھجوادی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جس مسافر کے ساتھ مبینہ طور پر بدتمیزی کی گئی تھی اس نے بھی اعلیٰ حکام کو تحریری شکایت ارسال کی ہے، یہ کمیٹی کیا فیصلہ کرتی ہے یا کیا نہیں کرتی بعد کی بات ہے لیکن پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ جس کام کو نہ کرنا ہو یا اس میں بگاڑ پیدا کرنا ہو تو کمیٹی بنادی جاتی ہے، اس سے قبل بھی ماضی میں اے ایس ایف اور کسٹم حکام کے تنازعے دیکھنے میں آئے ہیں، کسٹم حکام کا موقف ہوتا ہے کہ وہ اے ایس ایف کے ایکٹ کو نہیں چھیڑتے لیکن اے ایس ایف کسٹم ایکٹ کو چھیڑتی رہتی ہے، اصولا اگر دیکھا جائے تو ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کا کام یہی ہے کہ وہ مسافروں کے سامان کی اسکیننگ کریں اور مسافروں کی تلاشی لیں کہ ان کے پاس بم، گولہ بارود، اسلحہ اور دیگر ممنوعہ سامان نہ ہو، اس کے علاوہ ملازمین اور دیگر کے ایئرپورٹ پر آنے والوں کے پاسز چیک کرنا بھی ان کی ذمے داری میں آتا ہے، باقی سامان کیا ہے اور کتنا ہے وہ کام کسٹم کا ہے لیکن اے ایس ایف اس سے قبل بھی مسافروں کے سامان پر اعتراض لگاتی رہی ہے، اگر کوئی مسافر بیرون ملک فروزن سی فوڈ لے جارہا ہے تو وہ اس کا استحقاق ہے وہ لے جاسکتا ہے اس نے ایئر لائن کا ٹکٹ خریدا ہے، سامان زیادہ ہے تو وہ ایئر لائن کو وزن کے مطابق ادائیگی کرے گا اور سامان کو لے جائے گا، جب واپس آئے گا تو اگر اس کے پاس کو ڈیوٹی والی آئٹم ہے تو وہ ڈیوٹی ادا کرتا ہے جس سے ملک میں زرمبادلہ آتا ہے لیکن اے ایس ایف نے ائیرپورٹ پر اپنی مبینہ طور پر ٹیمیں چھوڑی ہوئی ہیں جو کسٹم کے معاملات میں بھی دخل دیتی ہیں اور ایف آئی اے جب امیگریشن کرکے مسافر کو کلئیر کرتی ہے تو اسے بھی اے ایس ایف کی ٹیمیں پوچھ گچھ کے لیے روکتی ہیں کہ ویزا اصل ہے یا نہیں جبکہ یہ کام ایف آئی اے کا ہے، در حقیقت بات یہ ہے کہ اگر ہر ادارہ اپنی حدود اور ایکٹ کے مطابق کام کرے تواس طرح کے تنازعات سامنے ہی نہ آئیں اور نہ ہی مسافروں کو اپنے ہی ائیر پورٹ پر اس طرح سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی بھی نہ ہو۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں