تحریر: عرفان مقصود خان
آزاد کشمیر کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے زیادہ تعلیمی نظام کا ناقص ہونا ہے 2005 کے زلزلے کے بعد حکومت پاکستان نے چائنہ کی گورنمنٹ کے ساتھ مل کر جن اسکول کالجز کی بلڈنگز تعمیر کی اس سے کم از کم یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے بچوں کو بہتر تعلیمی ماحول اور انفراسٹرکچر مہیا ہوا لیکن اس کے بعد بھی حکومت آزاد کشمیر نے روایتی طور پر تعلیم کے اوپر کوئی توجہ نہیں دی۔ ہمارے بچے اسی فرسودہ تعلیمی نظام میں علم حاصل کر رہے ہیں اور شومئی قسمت کہ آج تک ہمارے اساتذہ پولیٹیکل افیلیشن کی بنیاد پر بھرتی کیے جاتے ہیں۔
نااہل اور غیر ذمہ دار لوگوں کو روزگار کی غرض سےہمارے بچوں کے سروں پر بٹھا دیا جاتا ہے جب سکول کالجز میں پڑھانے والے اساتذہ ہی سیاسی بنیاد پر بھرتی ہوئے ہوں گے تو وہ کیسے اس شعبے کے ساتھ ایماندار رہیں گے۔ تعلیمی نصاب کی بات کریں تو ہمارے تعلیمی نصاب میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جو بچوں کو ہسٹری سے آگہی کرے اور کوئی ایسی کتاب شامل نہیں جس میں ہماری ثقافت ،ہمارا کلچر، کشمیر کی تاریخ، ہماری روایات اور ہمارے شہداء کی قربانیوں کا تفصیل سے ذکر موجود ہو. جو قوم اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہے وہ دنیا کے نقشے میں اپنا مقام برقرار نہیں رکھ سکتی پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم آگے جا کر دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں گے. ہمارے بچے جو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسوں میں پڑھتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کے ایک اہم فرد ہیں اور ملت کے لیے تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اسی لئے ہماری قوم عقیدے کے بجائے جماعتوں، علاقائی، گروہی تعصب، جغرافیائی یا برادری میں تقسیم ہو چکی ہے اور ہم لوگ انسانیت تفاوت کا شکار ہوچکے ہیں۔ میری آزادکشمیرکی گورنمنٹ سے یہی التجا ہے کہ برائے کرم ان معاملات پر سوچیں کیونکہ دنیا انہیں کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت خود کرتے ہیں اور اُس قوم کی اخلاقی قدریں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں جو اپنے تعلیمی نظام کو بہتر طریقے سے چلاتے ہیں۔ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں سیاسی مداخلت کو فورا ختم کرنا ہوگا نیز تمام اساتذہ کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے اور جدید، یکساں تعلیمی نظام کو فروغ دیا جائے۔ یہی وقت کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔