کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے احکامات پر عمل درآمد کروانے میں انتظامیہ اسٹیل ملز کے بااثر افسران کے سامنے بے بس ہوگئی۔ رواں ماہ میں سپریم کورٹ نے ملازمین سے پہلے انتظامیہ کے افسران کو فارغ کرنے کے احکامات دیئے جسے بااثر افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے ناصرف اپنے پیٹی بھائی افسران کے کنٹریکٹ کی معیاد بڑھا دی بلکہ پیسوں کا بھی اضافہ کردیا۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب اسٹیل ملز بند پڑی ہے تو ان افسران کی ضرورت نہیں ہے اور انتظامیہ ان کی ایک سال ایکسٹینشن تنخواہ بڑھا کر دے رہی ہے۔
اسٹیل ملز بورڈ آف ڈائریکٹرز کی اجازت سے سی ای او کی طرف سے 22 جنوری کو جاری نوٹی فیکیشن نمبر اے اینڈ پی/ای ایس ٹی ٹی./ سی او این ٹی-ای ایکس ٹی/20121/107 کے مطابق محمد عارف شیخ کو 25 جنوری 2021 سے 24 جنوری 2022 تک ایک سال تنخواہ 3 لاکھ پچاس، نوٹی فیکیشن نمبر اے اینڈ پی/ای ایس ٹی ٹی./ سی او این ٹی-ای ایکس ٹی/20121/108 کے مطابق لفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان کو 29 جنوری2021 سے 28 جنوری 2022 تک ایک سال تنخواہ 3 لاکھ پچاس اور نوٹی فیکیشن نمبر اے اینڈ پی/ای ایس ٹی ٹی./ سی او این ٹی-ای ایکس ٹی 20121/109 کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ بابر برنارڈ میسی کو 29 جنوری 2021 سے 28 جنوری 2022 تک ایک سال تنخواہ 3 لاکھ کی ایک سالہ اضافی ایکسٹیشن دے دی گئی۔
غیر پیشہ ورانہ بورڈ آف ڈائریکٹر اور صنعت و پیداوار سے مذکورہ بالا 3 متنازعہ کنٹریکٹ افسروں کی کارکردگی 2020-21 سے پاکستان اسٹیل ملز کو کیا انتظامی اور مالی فائدہ پہنچا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسٹیل ملز میں کم تنخواہ اور پچاس ہزار والے ملازمین کو نوکریوں سے نکال کر 65 سال کے ریٹائرڈ افسران کو 3,50000 پر کنٹریکٹ بڑھا کر ملازمت دینا معزز جج صاحبان کے ریمارکس پر سوالیہ نشان اور ان کی ملازمت کی توسیع پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
ایک سال قبل سیاسی و سفارشی غیر قانونی بھاری معاوضے پر آئے کنٹریکٹ پر بھرتی ڈائریکٹر اے اینڈ پی لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان، جی ایم سیکورٹی کیپٹن ریٹائرڈ بابر برنارڈ میسی کی ایک سالہ جبکہ اسٹیل ملز پر دس سال سے مسلط ڈائریکٹر فنائنس عارف شیخ کی کارکردگی صفر ہے۔
ایک سالہ کاکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ غیر قانونی کنٹریکٹ پر بھرتی ڈائریکٹر اے اینڈ پی طارق خان اور جی ایم سیکورٹی بابر برنارڈ میسی اسٹیل ملز کے اخراجات میں کمی کے بجائے اسٹیل مل پر بوجھ ثابت ہوئے اور اُلٹا خرچ بڑھاتے ہوئے بھاری تنخواہ لیتے رہے ہیں۔ جس میں جنسی ہراسمنٹ کیس، اسٹیل ملز گیسٹ ہائوس میں رہائش، افسران و سی بی اے کی دعوتیں اُڑاتے نظر آئے، مین پلانٹ کے اندر چوریاں، ہائی ٹینشن تاریں چوری، اسٹیل ملز اسٹور خالی، افسروں کے گھروں سے سالن، مکئی کی روٹی، ساگ، کورونا کی چھٹیوں میں اسلام آباد گیسٹ ہائوس میں رہائش جس کا خرچ بھی اسٹیل ملز سے وصول اور اپنے خاص لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کے علاوہ جہازوں کے سفری ٹکٹس اور اُلٹا اسٹیل ملز ملازمین کو جبری برطرف کرنے کے ساتھ غیر قانونی بھرتی کیس ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
وزرات صنعت و پیداوار کے زرائع کے مطابق پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو بوجھ قرار دے کر نوکریوں سے فارغ کرنے والی انتظامیہ پاکستان اسٹیل پر حکومت کی طرف سے انعامات و نوازشات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ کنٹریکٹ میں توسیع دے دی گئی۔
دی پاکستان اُردو سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز آفیسر ایسوسی ایشن پاکستان اسٹیل رجسٹرڈ کے صدر رائو محمد خالد نے کہا کہ پاکستان اسٹیل بورڈ آف ڈائریکٹرز کا متنازعہ افسران کے کنٹریکٹ و مالی مراعات میں اضافہ پاکستان اسٹیل کے مظلوم و استحصال پذیر ملازمین کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کو گھنائونی شازش تصور کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے مہنگائی کے اس پُر آشوب دور میں ملازمین اسٹیل ملز کی مالی مراعات میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکا اور حد تو یہ ہے کہ ان کو ملازمتوں سے بھی جبری برطرف کردیا گیا ہے۔ 18 مئی 2020 کے بعد ریٹائرڈ مظلوم ملازمین کو کورٹس کے واضح احکامات جاری ہونے کے باوجود بھی ان کے واجبات کی ادائیگی کرنے سے انتظامیہ اسٹیل گریزاں ہے۔ پاکستان پیپلز آفیسر ایسوسی ایشن پاکستان اسٹیل اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ اس ظالمانہ فیصلے کو فلفور واپس لیا جائے اور پاکستان اسٹیل کے تمام حاضر و ریٹائرڈ مظلوم ملازمین کے مسائل کو حل کرنے پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے۔
یاد رہے رواں ماہ 4 ستمبر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں اسٹیل ملز ملازمین کے پروموشن کے کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس نے اسٹیل ملز کی حالت زار کا ذمہ دار انتظامیہ کو قرار دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل ملز کے 437 میں سے 390 افسران کو بھی آج فارغ کریں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غلط کام نہیں ہوسکتا، کیا حکومت نے اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی؟
چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیل ملز انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مل بند پڑی ہے تو انتظامیہ کیوں رکھی ہوئی ہے؟ بند اسٹیل مل کو کسی ایم ڈی یا چیف ایگزیکٹو کی ضرورت نہیں، اسٹیل مل انتظامیہ اور افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں، ملازمین سے پہلے تمام افسران کو اسٹیل ملز سے نکالیں۔ معزز چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں کوئی وفاقی سیکرٹری کام نہیں کر رہا، تمام سیکرٹریز صرف لیٹربازی ہی کررہے ہیں جو کلرکوں کا کام ہے، سمجھ نہیں آتا حکومت نے سیکرٹریز کو کیوں رکھا ہوا ہے، سیکرٹریز کے کام نا کرنے کی وجہ سے ہی ملک کا ستیاناس ہوا، سیکرٹریز کو ڈر ہے کہیں نیب انہیں نا پکڑ لے، پہلے بھی تو سیکرٹریز کام کرتے تھے، اب پتا نہیں کیا ہوگیا۔