عقیدہ اور تجربہ

0
10

تحریر: پیرزادہ سلمان

میں اردو نثر میں صرف ایک لکھاری کو بار بار پڑھنا چاہتا ہوں اور وہ ہیں نیر مسعود، جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات میں ‘طبع زاد’ ہیں۔ ابھی ابھی میں نے ان کا ایک ننھا سا مضمون ختم کیا ہے جس کا نام ہے ‘عجائب’- یہ دنیا زاد کے سات نمبر شمارے میں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس مضمون میں نیر صاحب تین ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جنہیں عقل یا منطق کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ سمجھا جا سکتا ہی نہیں- ایک کا تعلق بیدل سے، دوسرے کا مرزا رسوا سے اور تیسرے کا جوش صاحب سے- میں تو نیر صاحب کی طرح نہیں لکھ سکتا سو اتنا بتا سکتا ہوں کہ جوش صاحب کے ایک دوست کی بیٹی کو ایک سانپ ایک خاص وقت میں ڈسا کرتا تھا جس کا اس لڑکی کو پہلے سے علم ہوتا تھا، بہت کوشش کی جاتی کہ سانپ سے اسے بچایا جا سکےا ور سانپ کے تمام راستے بند کر دیے جائیں لیکن وہ سانپ کسی نہ کسی طرح نمودار ہو کر اسے ڈس جاتا تھا- سو جب بھی وہ دن آتا، ڈاکٹر کا پہلے سے انتظام کر لیا جاتا جو لڑکی کے جسم سے زہر کو نکال دیتا۔

خیر۔۔۔

اس مضموں میں رسوا (جن کے ساتھ ہونے والا واقعہ ضرور پڑھنا چاہیے) کی بات کو نقل کرتے ہوئے نیر صاحب لکھتے ہیں، ‘ایک بار رسوا کے ایک دوست نے ان سے کہا کہ آپ فلسفہ پڑھتے ہیں پھر بھی بھوت چڑیل پر یقین رکھتے ہیں۔ اس پر رسوا نے کہا مجھے آپ کے تعجب پر تعجب ہے۔ میں تو آپ کو اپنا ایک تجربہ بتا رہا ہوں جو میری سمجھ میں نہیں آیا، اور آپ اس کو میرا عقیدہ سمجھ رہے ہیں’۔ تجربہ الگ چیز ہے اور عقیدہ الگ چیز۔۔۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں