کابل:ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی کابل میں پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ۔جب ہم نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا، افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں جو ہمارے خلاف کھڑے تھے۔ سابق فوجی ارکان، غیر ملکی افواج کے ساتھ بطور مترجم یا کوئی اور کام کرنے والوں سمیت کسی سے انتقام نہیں لیں گے۔ کوئی بھی ان کے گھر کی تلاشی نہیں لے گا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امیرالمؤمنین کے حکم پر سب کو معاف کر دیا گیا ہے اور طالبان کى اب کسی کے ساتھ دشمنی نہیں رہی۔ ایک مضبوط اسلامی ریاست کے قیام کے لیے بات چیت جاری ہے۔ افغانستان میں بہت جلد مضبوط، اسلامی اور کثیرالبنیاد حکومت کی تشکیل کی امید کرتے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دنیا اور تمام ہمسائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ افغان سرزمین کو کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ کابل میں تمام سفارتخانوں کو تحفظ اور سکیورٹی کا یقین دلاتے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ہم سے براہ راست بات کرے گی۔ عالمى برادرى کو ہمارے مذہبی اصولوں کا احترام کرنا ہوگا کیونکہ اس کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی مذہبی اور قومی اقدار کے مطابق دوسرے لوگوں کی طرح اپنا قانون بنائیں۔ دنیا کو ان اقدار کا احترام کرنا چاہیے اور افغانستان میں میڈیا آزاد ہے لیکن اسلامی اقدار کے مطابق کام کرے گا۔ تمام افغانوں کے مذہبی عقائد اور روحانی اقدار کا احترام کریں گے اور میں جانتا ہوں کہ ہر افغان بہتر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اگر ہم سب اس مقصد کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ہم ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں گےاور ان شاء اللہ ہم لوگوں کے فائدے کے لیے کام کریں گے۔ وہ نوجوان جن میں ٹیلنٹ ہے، صلاحیت ہے، جو یہاں بڑے ہوئے ہیں، ہم چاہیں گے کہ وہ یہاں رہیں اور افغانستان کی خدمت کریں۔
انہوں نے مذید کہا کہ خواتین کے حقوق ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ اسلام کے دائرے کے اندر خواتین کو تمام حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ وہ اسلامی روایات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے پريس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان ميں میڈیا آزاد ہے، تمام ادارے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ہماری تین تجاویز ہیں، نشریات اسلامی اقدار سے متصادم نہیں ہونی چاہیے، غیر جانبدار ہونی چاہیے اور قومی مفادات کے خلاف کوئی چیز نشر نہ ہو۔