پاکستان کو درپیش مسائل اور سیاست کا عملی کردار

0
57

تحریر: ہنزہ بلال

پاکستان گزشتہ ڈیڑھ سال سے سیاست دانوں کے مابین سیاسی چپقلش اور کشمش کا شکار ہے اور دوسری جانب مہنگائی سے ستائےعوام بمشکل    اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہے ہیں۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنا اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں سیاسی قیادت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان اس وقت بحرانوں کے گرداب میں گھرا ہوا ہے جس میں سیا سی عدم استحکام، معاشی بدحالی، مالی مشکلات، صنفی عدم مساوات، دہشتگردی و انتشار، سیلاب متاثرین کی بحالی، خوراک کی قلت، بجلی و گیس کی پیداور میں کمی، تعلیم کا نا قص نظام، غربت میں اضافہ، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سر فہرست ہیں۔

پاکستان کا بیشتر حصہ پچھلے سال 2022 کی گرمیوں میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کا  شکار تھا اس سے پاکستان میں معاشی بدحالی کا سا ساماں پیدا ہو گیا اور ملک و معاشرے کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ سیلاب کی تباہ کاری کے نقوش آج بھی مکمل طور پر نہیں مٹائے گئے ہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یا فلاحی اداروں کی مدد سے اپنی زندگیوں کی ریل کو ڈگر پر ڈال رہے ہیں، جس میں پاکستان کے نامور فلاحی ادارے عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن کا بھی اہم کردار ہے، جس نے سیلاب متاثرین کو خوراک مہیا کرنے سے لے کر ان کے گھر بار آباد کرنے میں احسن اقدام ادا کیا۔    ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ  2023 میں پاکستان کو بڑھتی مہنگائی، قرضوں، تنازعات اور دہشتگردی کے خطرات سے با خبر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں اگر سیاسی عدم استحکام کی بات کی جائے تو پاکستان میں ایک مضبوط قیادت کا فقدان ہے جو پاکستان کے مسائل کو دیکھے، سمجھے اور انہیں حل کرنے کی مربوط حکمت عملی کرے۔ سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر اپنے اختلافات کو دور کرنا چاہیے اور ملک کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھا نے چاہیے جس سے ملک و قوم ترقی کر سکے۔

وزیراعظم تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان میں  سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا واحد حل شفاف انتخابات ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں پاکستان نے اپنی تاریخ کی بدترین مہنگائی دیکھی اور ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ، روپیہ کی قدر میں کمی یہ سب سیاسی عدم اعتماد کا نتیجہ ہے جس کا واحد حل ملک میں  وقت پر انتخابات ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 70 فیصد آبادی دیہات پر مشتمل ہے۔ زراعت پاکستان کے لیے  ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2022 کے سیلاب سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 2.2 فیصد کمی ہوئی جس سے ملک میں مہنگائی اور غربت کا ایک نیا طوفان برپا ہوگیا۔  عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خوراک کی کمی کا مسئلہ خوراک کی دستیابی پر منحصر ہے، لوگوں کی قوت خرید میں مسلسل کمی      سے لوگ غربت کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔  جس کی وجہ سے وہ اپنی استطاعت کے مطابق خوراک تک نہیں خرید سکتے۔ سیلاب کی وجہ سے پاکستان جیسا زرعی ملک خوراک کی قلت کا شکار ہے۔

پاکستان میں تعلیم کی زبوں حالی ایک دیرینہ مسئلہ ہے، جدید تعلیم پاکستان سے کوسوں دور ہے۔ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے اسکولز تباہ ہوگئے جس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ سیلاب سے پہلے کورونا کی وجہ سے پاکستان میں تعلیمی نظام درہم برہم ہوگیا۔ تعلیمی اصلاحات کے لیے صرف نصاب کی تبدیلی ہی کافی نہیں ہے بلکہ اساتذہ اور تدریسی طریقوں میں بھی بہت زیادہ  تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کے بعد وجود بھی پاکستان میں بہت سے بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں۔ 

حالیہ برس میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات عروج پر تھے۔ سیلاب کے باعث پاکستان کے  پاس اتنا سرمایہ  تک نہیں تھا کہ ضروریات زندگی کی اشیا کو  درآمد کیا جا سکے۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کا سنگین بحران ہے، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور قیمتوں میں اضافہ سے لوگ پریشان ہیں۔ ملک افراتفری کی سی صورتحال سے دوچار ہے، جس میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔
سیاست دانوں کی جانب سے اداروں پر عدم اعتماد  بھی ملک میں انتشار اور نفرت کا باعث ہے۔ لوگوں کو اداروں کے خلاف بھڑکانے سے ملک میں عوام اور اداروں میں تصادم کی کوشش سے بھی ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا نیز اس کے علاوہ افغانستان سے امریکی انخلا بھی پاکستان میں بد امنی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلا پر ایک سیکیورٹی خلا پیدا ہوگیا جو تاحال پر نہ ہو سکا اور اس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر ہوا۔  افغانستان کے ساتھ امن اور دوطرفہ تعلقات بھی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انتحابات کے بعد ہی نئی آنے والی حکومت اس خلا کو پر کر سکتی ہے۔

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ کرنسی کو مارکیٹ پر چھوڑا جائے، محصولات میں ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکسز لگائیں جائیں، گردشی قرضوں کو کم کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے اور قرض کی ادائیگی کے لیے مکمل تفصیلات پیش کی جائیں۔ اس سب مطالبات کو ماننا پاکستان کی مجبوری تھی ان کو مانے سوا کوئی حل بھی نہیں تھا۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3 ارب ڈالر کا معاہدہ 9 ماہ کے لیے طے پایا گیا، جس سے ملکی مسائل کم تو نہیں لیکن کچھ بہتر ہوسکتے ہیں۔ مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے حکومتی اخراجات میں بڑی کمی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کو گردشی قرضوں سے نکلنے اور ان کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہونگے۔

پاکستان میں ان مسائل کے حل کے لیے ایک ایماندار سیاسی قیادت ضروری ہے جو پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ پاکستان میں اس وقت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی جو ایک کافی عرصے تک پاکستان پر حکومت کر چکے ہیں لیکن پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ان کا کردار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی پاکستان کے مسائل کا حل نہ تلاش کر سکی بلکہ اس میں اضافہ کا  باعث رہی۔ اب حال ہی میں پاکستان میں نئی جماعت وجود میں آئی جس کا نام استحکام پاکستان پارٹی ہے۔ اس کے صدر عبدالعلیم خان جو سیاست میں آنے سے پہلے ہی اپنے نام سے ایک فاؤنڈیشن عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو فلاحی کاموں میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ فاؤنڈیشن کے 100 فیصد اخراجات عبدالعلیم خان خود اٹھاتے ہیں۔ اگر عبدالعلیم خان کو اس دفعہ انتخابات میں عوام موقع دیں تو یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل سننے اور حل کرنے کی بخوبی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص بغیر سیاست کے عوام کی خدمت کر سکتا ہے وہ حکومت میں آکر  حکومتی وسائل کو عوام کی بہتری کے لیے ضرور بروئے کار  لائے گا۔ نفسیات کے ماہرین یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ انسان پڑھے سے زیادہ دیکھے پر عمل کرتا ہے اس لیے عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن کے کام دیکھنے عوام خود میو ہسپتال لاہور، سروسز ہسپتال لاہور، چلڈرن ہسپتال میں موجود ڈائلیسز  سینٹر عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن کا دورہ کریں اس کے علاوہ عبدالعلیم خان کے حلقوں میں جائیں وہاں عوام کی رائے لیں، پنجاب کی جیلوں میں جا کر قیدیوں سے جیل میں مہیا کردہ سہولیات کا پوچھیں، اپنا گھر جا کر وہاں کی یتیم بچیوں سے پوچھیں کہ کون ان کا واحد سہارا ہے اس کے علاوہ واٹر فلڑیشن پلانٹس اور عبدالعلیم خان ڈسپنسریوں کا قیام اس کے علاوہ انسانی بہبود کے وہ سارے کام جو ابھی تک آپ سے اور مجھ سے پوشیدہ ہیں ان سب کو کرنے والے عبدالعلیم خان نے اپنی بھر پور صلاحیتوں سے عوام کے مسائل کو حل کیا اور ہر ممکن انہیں ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

عبدالعلیم خان کو عوام خود پرکھے اور خود فیصلہ کریں کہ انتخابات میں کامیابی کا اصل حقدار کون ہے۔ عوام عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن کا دورہ کریں،  اور فیصلہ کریں کہ سیاسی مفاد سے ہٹ کر کس طرح کام رواں دواں ہے۔ آنے والے انتخابات عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے اور عوام کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ خود عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔       

پاکستانی عوام کا فیصلہ ہی ان کی تقدیر اور ملک کے حالات کو بدل سکتا ہے۔ اس لیے عوام کو چاہیے اب کی بار باتوں کی بجائے حکمت عملی والوں پر بھروسہ کریں اور ملک کو کرپٹ سیاست دانوں سے نجات دلائیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں