تحریر: عامر حسن قریشی
حکومت پاکستان نے 15 دسمبر 2024 کو فیس لیس امپورٹ کلیئرنس سسٹم متعارف کروا کر انتہائی مَعْرَکَۃُ اْلآرا کام سرانجام دیا، جس کے باعث امپورٹ ڈیوٹی کی مد میں ہونے والی آمدنی میں فوری اضافہ دیکھنے میں آیا اور کسٹمز حکّام اور امپورٹرز کی ملی بھگت/کرپشن سے امپورٹ ڈیوٹی کی مد میں ہونے والی چوری بھی ختم ہوئی، لیکن یہ صورتحال صرف دو ڈھائی ماہ برقرار رہ سکی اور محکمہ کسٹمز کے مشہور زمانہ کرپٹ افسران و اہلکاروں نے اس سسٹم کا توڑ نکال لیا۔ اب پہلے جتنی چوری نہ سہی لیکن بہرحال وہ دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔
فیس لیس امپورٹ کلیئرنس سسٹم نے دراصل کسٹمز اپریزر اور امپورٹر (کلیئرنگ ایجنٹ) کے باہمی تعلق کو ختم کر دیا ہے۔ اس سسٹم کے تحت امپورٹر (کلیئرنگ ایجنٹ) کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی شپمنٹ کس کسٹمز اپریزر کے پاس کلئیر ہونے کیلئے پیش ہوئی ہے اور نہ کسٹمز اپریزر کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سسٹم نے جو شپمنٹ امپورٹ ڈیوٹی کے تخمینے اور کلیئرنس کیلئے اس کے پاس پیش کی ہے وہ کس امپورٹر (کلیئرنگ ایجنٹ) کی ہے۔ اب چونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے لاتعلق کر دیئے گئے ہیں اس لئے یہ کوئی ساز باز نہیں کر سکتے جیسا کہ پہلے ہوتا تھا کہ مثال کے طور پر اگر کسی شپمنٹ پر اصل امپورٹ ڈیوٹی ایک لاکھ روپے بنتی ہے تو کسٹمز اپریزر اسے پچیس ہزار روپے اپریز کرتا جو امپورٹ ڈیوٹی کی مد میں قومی خزانے میں جمع ہو جاتی۔ اتنے ہی پیسے اپریزر اپنے انعام کے طور پر وصول کر لیتا۔ یوں امپورٹر اصل امپورٹ ڈیوٹی کا نصف خرچ کرکے نصف کا فائدہ اٹھا لیتا لیکن قومی خزانے کو 75 ہزار روپے کا نقصان ہو جاتا۔
فیس لیس امپورٹ کلیئرنس سسٹم کی وجہ سے صرف پہلے 2 ماہ قومی خزانے میں ہر امپورٹ شپمنٹ کی ڈیوٹی نہ صرف پوری پوری جمع ہوتی رہی بلکہ کلیئرنس ٹائم بھی بہت کم ہو گیا لیکن سر تا پا کرپشن میں لت پت کسٹمز اسٹاف یہ کیسے برداشت کرتا/ انہوں نے آخر اس سسٹم کا توڑ نکال ہی لیا۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کسٹمز اپریزر اب بڑی تعداد میں امپورٹ شپمنٹس کو “ریویو” یعنی معائنے میں ڈال رہے ہیں۔ شپمنٹ ریویو کا اختیار اسسٹنٹ کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کے پاس ہوتا ہے، جہاں امپورٹر (کلیئرنگ ایجنٹ) کو ان کے پاس پیش ہونا پڑتا ہے اور اب یہ امپورٹ فیس لیس نہیں رہتی۔ پہلے جو کام اپریزر کے پاس ہو رہا تھا وہی کام اب اے سی/ڈی سی کے پاس ہونے لگا ہے۔ اپریزر کو شپمنٹ “ریویو” میں ڈالنے کا انعام پہنچ جاتا ہے۔ گو کہ پہلے جتنی حرام کمائی نہیں رہی لیکن کچھ نہ کچھ پھر سے آنے لگی ہے۔ جو اپریزر پہلے 1 لاکھ بنا رہا تھا اب وہ 40 پچاس ہزار بنا ہی لیتا ہے۔
بڑی تعداد میں شپمنٹس “ریویو” میں ڈالے جانے کی وجہ سے پورٹ پر شدید بلاکیج کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور سسٹم متعارف ہونے کے بعد کم وقت میں جو شپمنٹس کلیئرنس ہونا شروع ہوگئی تھیں ان میں پھر سے تاخیر ہونے لگی ہے۔
کراچی پورٹ پر امپورٹ کلیئرنس کی جگہ جو “چائنا پورٹ” کے نام سے مشہور ہے وہاں ایک وقت میں 48 اپریزر ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ چونکہ یہ ڈیوٹی دو شفٹوں میں ہوتی ہے اس لئے اپریزرز کی کل تعداد 96 ہے۔ تمام اپریزر نہیں لیکن ان کی اکثریت متذکرہ بالا سسٹم توڑ فعل کی واردات میں ملوث ہے۔
ریکارڈ چیک کر لیں کہ امپورٹ ڈیوٹی کی مد میں قومی آمدنی پچھلے 2 ماہ میں بتدریج کتنی کم ہوئی ہے، کیسے امپورٹ شپمنٹس کو “ریویو” میں ڈالنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور امپورٹ کلیئرنس کا وقت کیسے پھر سے بڑھنے لگا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمّد اورنگزیب، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال اور ممبر کسٹمز محمّد جنید جلیل خان سے نوٹس لیکر اصلاح احوال کی گزارش ہے۔