کتاب نقوش جالبی ڈاکٹر جمیل جالبی کی چھٹی برسی پر یادگاری اشاعت

0
22

تبصرہ: مقبول خان

ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری جامعہ کراچی کے زیر اہتمام کتاب نقوش جالبی شائع کی گئی ہے۔ کتاب کی تحقیق و تدوین میں جالبی صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر خاور جمیل، گلناز محمود اور مجید رحمانی کے نام شامل ہیں۔ یہ کتاب ڈاکٹر جمیل جالبی کی چھٹی برسی کے موقع پر یاگاری اشاعت قرار دی گئی ہے۔ کتاب نقوش جالبی ادب دوستوں اور جالبی صاحب کے دوستوں نقادوں، ان کے رفقاءاور دانشوروں کی تحریروںپر مشتمل ہے۔کتاب کے سرورق پر سلسلہ مطبوعات ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کی 26 ویں تحریر ہے۔ جس یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لائبریری محض ایک مطالعہ گاہ اور تشنگان علم وادب کو سیراب کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ تحقیق و مطبوعات کا ایک مرکز بھی ہے۔ کتاب نقوش جالبی کے پیش لفظ کے مطابق ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں 2016 کے یوم آزادی کے موقعہ پر علالت کے دوران اپنے نام سے موسوم ڈاکٹر جمیل جالبی فاونڈیشن کے سنگ بنیاد کی تنصیب کے وقت جو خواب دیکھا تھا، ان کی حیات طبعی میں تو اس کی تعبیر نہ مل سکی، تاہم وہ عالم ارواح سے ضرور دیکھ رہے ہونگے کہ ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر خاور جمیل کی کی سرپرستی اور خانوادہ جالبی کی مشاورت اور معاونت سے اس خواب کی جامعہ کراچی کے قلب میںایک پر شکوہ عمارت کی صورت میں تعبیر بھی ملی۔ جو ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔

کتاب میں جن تحریروں کو شامل کیا گیا ہے، ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی شخصیت، اور ان کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب حالیہ عہد کے ایک ایسے معتبر مصنف، مترجم، محقق، مورخ نقاد، لغت نویس، اور دانشور ہیں جن کے متعلق یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار اردو ادب کے ان ادیبوں کی فہرست میں نمایا نظر آتا ہے ،جو اردو کے جدید اور قدیم ادبی سرمایہ جو دو صدیوں پر مشتمل ہے اس سے کما حقہ واقف ہیں۔ ان کی تصنیف و تالیف کا دورانیہ 40 سال یعنی 1957 تا 1997 پر محیط ہے۔ اس عرصے کے دوران ان کی تصنیف اور تالیف کی سرگرمیاں کسی تعطل کے بغیر جاری رہیں۔ ان کی بیشتر تصانیف یادگار اور وقیع ہیں، اور اردو دنیا کا ایک ایسا علمی و ادبی خزانہ ہے، جس سے آنے والی کئی نسلیں استفادہ حاصل کرتی رہیں گی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی ایک یہ بھی نمایاں خصوصیت ہے کہ انہوں نے دنیائے علم وادب میں خود کو متفقہ طور پر مایہ ناز مصنف، ممتاز نقاد، بلند پایہ ادیب، اور منفرد مورخ کے طور پر منوایا ہے۔

جالبی صاحب کی کئی تصانیف نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے۔ وہ ایک معتبر نقاد، مصنف، مورخ اور لغت نویس قرار پائے۔ ان کی مثالی تصنیف تاریخ ادب اعدو ایک ایسی تصنیف ہے جو اپنی اشاعت سے لے کر اب تک علمی و ادبی حلقوں میں یکساں مقبول ہے۔ تاریخ ادب اردو چار جلدوں پر مشتمل ہے، ایسی تصنیف اب تک دنیائے اردو میں نہیں لکھی جاسکی ہے۔ جالبی صاحب کی ایک اور اہم تصنیف پاکستانی کلچر، قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے۔ یہ ہر اعتبار سے مکمل اور سیر حاصل مباحث پر مبنی ہے۔ اسی طرح ان کی تصنیف ارسطو سے ایلیٹ تک، یہ کتا اپنی افادیت اور اہمیت کے حوالے ادب اور تحقیق کی دنیا میں بڑا کام ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو زبان و ادب کی جو خدمت کی ہے، وہ ناقابل فراموش ہے۔ جالبی صاحب کی اردو اور ادب کی خدمات کے حوالے سے یہ پہلو بھی انتہائی اہم ہے کہ انہوں نے اردو اور ادب کی جو خدمت فرد واحد کے طور پر کی ہے، وہ کام ایک ادارے کا تھا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے بچوں کے ادب کا بھی احاطہ کیا ہے۔ انہوں نے بچوں میں تخیل اور جسجو کے ساتھ کام سے لگن کا جذبہ بھی ابھارا ہے۔ انہوں نے بچوں کا ادب لکھنے والوں کو تر غیب دی کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ بچوں میں تاریخ، ثقافت، تہذیب، روایت کوفروغ دیں، نیز بچوں کا ادب ایسی زبان میں لکھا جائے جو درست ،چست اور دلچسپ ہو۔جالبی صاحب ترجمہ نگاری کے فن میں انتہائی مہارت کے ساتھ ایک نیا پن بھی ملتا ہے۔جالبی صاحب جس خوبصورتی کے ساتھ مصنف کے لہجے کو جس طرح اردو کے قالب میں منتقل کرتے ہیں وہ مہارت اور انفرادیت بہت کم مترجمین میں پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے تارجم کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ ان کا ترجمہ تکنیکی اور میکانکی عمل کی رنگ بازی سے مبرا ہے۔ بلاشبہ جالبی صاحب اپنی زات میں انجمن تھے۔

زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر خاور جمیل کی تحریر بعنوان انگریزی اردو لغت ایک عظیم علمی و لسانی سرمایہ گرانقدر اور معلوماتی د ستاویز ہے۔ پروفیسر سحر انصاری کا مضمون ڈاکٹر جمیل جالبی اردو تنقید کا کی ایک نئی جہت بھی قابل مطالعہ ہے، کتاب میں پروفیسر عبدالمتین، ڈاکٹر معین الدین عقیل، گلناز محمود، میر حسین علی امام، اوج کمال، مجید رحمانی ،رئیس احمد صمدانی، زیبا گلزار، نسیم فاطمہ، ساجد خاکوانی، بشیر سدوزئی، افتخار رسول شیخ مسرت حسین رضوی،عارف سومرواور دیگر مشاہیر کے نام شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر جمیل جالبی کے چھوٹے بھائی سہیل جالبی کے نام ہے۔ کتاب کے آغاز میں گلناز محمود کا ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی و علمی خدمات کے حوالے سے منظوم خراج عقیدت بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔کتاب کے جملہ حقوق بحق لائبریری محفوظ ہیں۔ 154صفحات پر مشتمل کتاب نقوش جالبی کا سرورق سادہ لیکن جازب نظر ہے۔ امید ہے کہ کتاب نقوش جالبی علمی و ادبی حلقوں سمیت طلباء اور تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں میں بھی پذیرائی حاصل کرے گی۔ کتاب کے پیش لفظ میں ریسرچ لائبریری کے روح رواں ڈاکٹر خاور جمیل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ لائبریری کے وسیع کتب خانے میں مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی کتابوں کے اضافے کے ساتھ مطبوعات کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں